Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Wahma Social Media Se Inqilab Barpa Nahi Kya Ja Sakta

Wahma Social Media Se Inqilab Barpa Nahi Kya Ja Sakta

جب سے ہوش سنبھالا ہے "پاکستان کی شہ رگ" مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی جانب سے جذباتی تقاریرہی سننے کو ملی ہیں۔ بھارت اور مسئلہ کشمیر پر 1984ء سے بطور رپورٹر کامل توجہ 20سے زیادہ برسوں تک مبذول رکھنے کے باوجود لیکن پاکستان میں کسی ایسے محقق یا لکھاری سے ملنا نصیب نہیں ہوا جو کشمیر کی تاریخ اور سیاسی تحاریک کے بارے میں چشم کشا معلومات فراہم کرسکے۔ بھارت کے قبضے میں موجود کشمیریوں سے ملاقاتیں مگر اس تناظر میں حیران کردیتی ہیں۔

مذکورہ تناظر میں نام گنوانا شروع کردوں تو وہ موضوع نظرانداز ہوجائے گاجس پر یہ کالم لکھنا چاہ رہا ہوں۔ فقط یہ اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ حال ہی میں دارفانی سے رخصت ہوئے کشمیری رہ نما عبدالغنی بھاٹ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی توخود کو کاملاََ جاہل محسوس کرتا۔ مرحوم بنیادی طورپر فارسی زبان کے استاد تھے۔ فارسی کے کلاسیکی شعراء کے کسی مصرعہ کے ذریعے پیچیدہ ترین سیاسی موضوع کو یک سطری لفظوں میں بیان کردیتے تھے۔ ان کے ساتھ ملاقاتیں نہیں طالب علم کی کسی استاد کے ہاں عاجزانہ حاضری ہوا کرتی تھی۔

اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر کاخیال ذہن میں آئے تو جی یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہے کہ ہم اسے بھلاچکے ہیں۔ میرے دعوے کو آپ تلخ ٹھہراکر ٹھکرا سکتے ہیں۔ آج کا زمانہ مگر ڈیجیٹل کہلایا جاتا ہے۔ X اور فیس بک وغیرہ پر جو بھی پوسٹ ہو اس کے پڑھنے والوں کی تعداد مشینی ذرائع سے طے ہوجاتی ہے۔ ڈنڈی مارنے کا اس ضمن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ پوسٹ ہوئی تحریر پر تبصرے یہ حقیقت بھی عیاں کردیتے ہیں کہ اسے پڑھنے والے کتنے "سنجیدہ" ہیں۔

چند روز قبل میں نے جموں کے مؤقر روزنامے "کشمیر ٹائمز" میں قسط وار چھپے ایک حلف نامے کا ذکر کیا تھا۔ مشہور حریت پسند رہنما یاسین ملک نے اسے دلی ہائی کورٹ میں جمع کروایا ہے۔ مین سٹریم بھارتی میڈیا میرا کالم اور "کشمیر ٹائمز" میں مذکورہ حلف نامے کی پہلی قسط چھپنے کے بعد سے اب تک مذکورہ حلف نامے سے چند سنسنی خیز کہانیاں نچوڑنے میں مصروف ہے۔ ان کہانیوں کا مقصد متعصبانہ ہے۔

یہ بنیادی طور پر اس سوال پر زور دے رہی ہیں کہ نرسمہارائو سے مودی کی پہلی ٹرم تک بھارت کے پانچ وزیر اعظم "دہشت گرد"یاسین ملک کو ہتھیار پھینکنے کے بعد کشمیر اور پاکستان کے ساتھ دائمی امن کی خواہش میں"پیغامبری" کے لئے کیوں استعمال کرتے رہے۔ یاسین ملک کو ہتھیار پھینک کر اپنائی گاندھی والی "عدم تشدد سیاست" کو 25برس گزرگئے تو انہیں"غیر ملکوں سے رقوم حاصل کرنے" اور "متشدد تنظیموں سے رابطے" حاصل کرنے کے الزام میں عمر قید دلوادی گئی۔ مودی حکومت مگر اس سزا سے مطمئن نہیں۔ دلی ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ہوئی اپیل یاسین ملک کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کررہی ہے۔

"کشمیر ٹائمز" نے یاسین ملک کے حلف نامے کی چار قسطیں چھاپی ہیں۔ میں نے ہر قسط کو نہایت توجہ سے پڑھا۔ چوتھی قسط نے مگر مجھے ایک انتہائی مختلف تناظر میں چونکا دیا۔ مذکورہ قسط ایک حوالے سے اس سوال سے متعلق ہے کہ سوشل میڈیا "انقلاب" لانے میں مددگار ثابت ہوتاہے یا نہیں۔ میرے دیرینہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ ٹویٹرکی ایجاد کے چند ہی دن بعد میں اس پلیٹ فارم پر ضرورت سے زیادہ متحرک ہوگیا تھا۔ بالآخر نام نہاد "عرب بہار" کے نتیجے میں قائم مرسی حکومت کامصری فوج نے تختہ الٹا تو ذہن میں سوشل میڈیا کی افادیت پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوگئے۔

ذاتی طورپر میں اپنے ذہن میں ابلتے سوالات کے تسلی بخش جوابات ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ ترکی سے امریکہ منتقل ہوئی ایک صحافی -زینب توفیقی- کی ایک کتاب نے مگر بہت کچھ سمجھادیا۔ حسنی مبارک کے طویل دوراقتدار کے خلاف چلی تحریک کے دوران زینب اپنے خرچے پر قاہرہ جاکر التحریر اسکوائر میں لگے احتجاجی کیمپوں میں رہنے لگی۔ وہاں قیام کے دوران اس نے"گرائونڈ زیرو" سے بطور فری لانس صحافی مختلف امریکی اخبارات کو خبریں بھیجنا شروع کردیں۔ اس کی بدولت "صحافی" شمار ہوئی تومبارک حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نیویارک لوٹ آئی اور خود کو کووڈ وباء کی کوریج کے لئے وقف کردیا۔

نیویارک ٹائمز اس کے مضامین سے اکثر استفادہ کرتا۔ وباء کے بارے میں اس کی تحقیق نے کافی جرائد کی توجہ بھی حاصل کی۔ معاشی طورپر سنبھل جانے کے بعد زینب توفیقی نے دوبارہ مصر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ سمجھنا چاہ رہی تھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے برپا ہوا "انقلاب" بالآخر ناکام کیوں ہوا۔ مرسی کے مختصر انقلاب کے بعد مصر دوبارہ حسنی مبارک جیسے ایک اور آمر تلے سرجھکائے زندہ رہنے کو کیوں مجبور ہے۔ سوشل میڈیا اس آمر کو جھٹکادینے میں کیوں ناکام ہورہا ہے۔

جو سوالات زینب توفیقی کے ذہن میں تھے ان کے جواب اس نے مصر ہی میں کئی دن رہ کر ان لوگوں سے ملاقات کے بعد ڈھونڈے جو "عرب بہار" کے سرکردہ تصور ہوتے تھے۔ ان میں سے اکثر اب مصر چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کرچکے ہیں۔ ان میں سے جو مصر کی جیلوں میں جانے سے محفوظ رہے ان دنوں"انقلاب" بھلاکر نوکریاں ڈھونڈرہے ہیں۔ نوکری مل جائے تو اسے بچانے کے لئے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نظر بظاہر شکست خوردہ "انقلابیوں" سے طویل گفتگو اور ملاقاتوں کے بعد زینب توفیقی نے (Twitter and Tear Gas) (ٹویٹر اور آنسو گیس) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ سوشل میڈیا کے اندھے معتقدین کے لئے پڑھنا لازمی ہے۔ میں اس کا ذکر تواتر سے اس کالم میں جان بوجھ کر کرتا ہوں۔

عرصہ ہوا کسی بھی محفل میں جائو تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ "سوشل میڈیا نے پاکستان کو بدل دیا ہے"۔ یہ فرمان سن کر میرا جھکی ذہن چند بنیادی سوالات اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے انتخابی نشان سے محروم ہوجانے کے باوجود تحریک انصاف 8فروری2024ء کے انتخابات کے دوران ملک کی سب سے بڑی منتخب جماعت بن کر قومی اسمبلی میں آئی۔

واحد اکثریتی جماعت کے طورپر ابھرنے کے باوجود اسکا جائزوناجائز بنیادوں پر دعویٰ ہے کہ "فارم47" کی وجہ سے اس کا مینڈیٹ "چوری" ہوا وگرنہ وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں آتی۔ واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں قومی اسمبلی میں آنا بھی لیکن تحریک انصاف کی مدد نہیں کرپایا۔ ان کے قائد-عمران خان یقیناََ اس وقت ملک کے مقبول ترین سیاسی رہ نما ہیں۔ ان کی مقبولیت مگر ان کی رہائی کے امکانات بھی اجاگر نہیں کررہی۔ کیوں؟ اس سوال کا علمی تحقیق کے بعد لکھے کسی بھی مضمون یا کتاب میں جواب نہیں ملتا۔ فقط "ریاستی جبر" کی داستانیں سناکر بات ختم کردی جاتی ہے۔

بطور رپورٹر میں مذکورہ بالاسوال کے جواب علمی انداز میں ڈھونڈنے کی تربیت سے محروم ہوں۔ رپورٹر سے کالم نگاری کا سفر "ڈنگ ٹپائو" رویہ کا عملی نمونہ ہے۔ پاکستان مگر کئی عالم فاضل لوگوں سے مالا مال ہے۔ ان میں سے چند یوٹیوب پر نظر آئیں تو "کھڑکی توڑ" رش لیتے ہیں۔ ان سے بھی مگر مذکورہ بالا سوالات کے جواب نہیں ملتے۔ سوشل میڈیا کے بارے میں لیکن چند کتابیں پڑھنے اور اپنے روزمرہّ کے تجربات سے گزرنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا "واہمہ" ہے۔ اس کے فریب میں گرفتار ہوکر "انقلاب" برپا نہیں کیا جاسکتا۔

میری اس سوچ کو یاسین ملک جیسے ہمہ وقتی سیاسی کارکن نے اپنے حلف نامے کی چوتھی قسط میں برہان وانی کا ذکر کرتے ہوئے بہت تقویت پہنچائی ہے۔ برہان وانی اگر آپ کو یاد نہیں تو جولائی 2016ء میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوا تھا۔ اس کے قتل کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی روز تک ہنگامے برپا رہے جن کے انجام پر 150شہری شہید ہوئے۔ سینکڑوں زخمیوں کے علاوہ درجنوں کشمیری "مرچ بموں" کی وجہ سے بینائی کھوبیٹھے۔ یاسین ملک نے بے تحاشہ مثالوں سے واضح کیا ہے کہ "بھارت کے سکیورٹی گرڈ" نے 15سال کی عمر میں گھر چھوڑنے والے اس مجاہد کو جان بوجھ کر سوشل میڈیا کا "ہیرو" بننے دیا۔

جولائی 2016 میں اس کی شہادت سے کئی برس قبل ہی اس کی تمام حرکات وسکنات کا بھارت کے سکیورٹی اداروں کو کامل علم ہوتا تھا۔ اس کے فون کے علاوہ محفوظ ترین تصور ہوتا "تھورایا" فون بھی بھارت کے سکیورٹی اداروں کے لئے GPSکا کام کرتے ہوئے اس کی لوکیشن عیاں کرتے رہے۔ اسے مگر گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب یاسین ملک نے اپنے حلف نامے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کالم ختم کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یاسین ملک نے برہان وانی پر بھارتی سکیورٹی اداروں کا "کارندہ" ہونے کا الزام نہیں لگایا ہے۔ اس کے تفصیلی ذکر سے بلکہ سوشل میڈیا کی محدودات اور کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran