سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہوا ذہن ان دنوں سوشل میڈیا کے پھیرے لگانے کو مائل نہیں ہوتا۔ صحافی ہونے کی تہمت مگر تازہ ترین جاننے کے لئے "اس گلی" میں جانے کو مجبور کردیتی ہے۔ پیر کی صبح کالم لکھ کر دفتر بھجوادیا تو ایکس کہلاتے پلیٹ فارم پر زلمے خلیل زاد کے پیغام پر نظر پڑگئی۔ اس کے لکھے پیغام کو میرے دیکھنے تک 85ہزار لوگ دیکھ چکے تھے۔ اس کے اوپر تبصروں کی بوچھاڑ بھی جاری تھی۔
مزید بڑھنے سے قبل ہاتھ اٹھاکر اعتراف کرتا ہوں کہ افغان نڑاد امریکی زلمے خلیل زاد کو میں ایک ناقابل علاج موقعہ پرست شمار کرتا ہوں جو نہایت مکاری اور ہوشیاری سے امریکی انتظامیہ کے لئے کوئی "بڑا کام" کرنے کی خاطر کسی اہم عہدے پر تعیناتی کا منتظر رہتا ہے۔ اس کی موقعہ پرستی کا سب سے بڑا ثبوت موصوف کا آج سے کئی دہائیاں قبل ری پبلکن پارٹی کا حامی بن جانا تھا جبکہ امریکہ میں مقیم تارکین وطن خصوصاََ مسلمان عموماََ ڈیموکریٹس کو پسند کرتے رہے ہیں۔
ری پبلکن جماعت سے وفاداری کی بنیاد پر اس کی "لاٹری" نائن الیون کے بعد بالآخر نکل آئی۔ بش انتظامیہ نے ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر ہوئے حملے کا بدلہ لینے کے لئے جب افغانستان پر حملہ کیا تو زلمے کو چند مہینوں بعد افغانستان میں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔ اپنے "مادر وطن" میں کسی اور ملک کا سفیر بن کر کام کرنا غیرت مند لوگوں کا شیوہ نہیں۔ زلمے نے مگر اپنے عہدے کو ڈھٹائی سے استعمال کیا۔ امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے دوران میں دس سے زیادہ مرتبہ اس ملک گیا تھا۔
افغان عوام حقارت سے مجھ سے ہوئی گفتگو میں زلمے کو "وائسرائے" پکارتے تھے۔ چند باخبر لوگوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ زلمے کی سرپرستی میں افغان ٹھیکے داروں کا ایک گروپ اس ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لاکھوں ڈالر سمیٹ رہا ہے۔ جن منصوبوں کا ذکر ہوتا ہے ان کے لئے ادا ہوئے ڈالر مگر برسرزمین خرچ ہوتے نظر نہیں آرہے تھے۔ بش انتظامیہ مگر زلمے پر اعتبار کرتی رہی۔ اس کی دانست میں بطور پیدائشی افغان اور مسلمان وہ افغانستان کے معاملات کو گورے امریکنوں کے مقابلے میں جبلی طورپر بہتر انداز میں حل کرنے کی تدابیر ڈھونڈسکتا تھا۔
زلمے کی کابل موجودگی میں لیکن افغانستان کا "منتخب صدر"-حامد کرزئی- خود کو فیصلہ سازی کے حوالے سے کمزور اور زلمے کے سائے تلے دبا محسوس کرتا۔ اس کی پریشانی دور کرنے کے لئے بش انتظامیہ نے زلمے کو کابل سے ہٹاکر بغداد میں امریکہ کا سفیر تعینات کردیا۔ اس کی "ماہرانہ سفارت" کے دوران ہی عراق میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیم ابھری جس سے نبردآزما ہونے کے لئے امریکہ کو کئی برسوں تک متعدد فوجی آپریشن کرنا پڑے۔ زلمے خلیل زاد کو بھی ہٹانا پڑا۔ عراق میں امریکی سفیر کے منصب سے فارغ ہوکر زلمے خلیل زاد طویل عرصے تک تقریباََ گمنامی کی نذر ہوگیا۔
2016ء کے صدارتی انتخابات کے بعد اس کی قسمت دوبارہ چمک اٹھی۔ ٹرمپ نے اس انتخاب کی بدولت منتخب ہوتے ہی افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔ پاکستان پر اعتماد کو وہ ان دنوں آمادہ نہیں تھا۔ اس نے بھی "پیدائشی افغان" زلمے خلیل زاد کی "بصیرت" سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ طے یہ بھی ہوا کہ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں قائم طالبان کے "رابطہ دفتر" کے ذریعے افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کی راہ بنائی جائے۔ عمران حکومت اور قمر جاوید باجوہ پر دبائو بڑھا کہ وہ طالبان کو دوحہ میں مذاکرات کی میز پر بٹھائیں۔ باجوہ صاحب کو اپنے دورِ شہنشاہی میں اپنے پسند کے صحافیوں سے گپ شپ لگانے کا بہت شوق تھا۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی لیکن انہوں نے شاید یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ طالبان کو دوحہ مذاکرات کے حوالے کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ سے کیا ضمانتیں مانگی تھیں۔
زلمے خلیل زاد اور امریکہ کی خوش بختی کہ ان دنوں ہمارے وزیر اعظم عمران خان بذاتِ خود افغانستان کے طالبان کے ساتھ صلح جوئی کا رویہ اختیار کرنا چاہ رہے تھے۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی اس ضمن میں ان کی پشت پناہی فرماتے رہے۔ بالآخر دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان "صلح" کا معاہدہ ہوگیا۔ اس پر عملدرآمد لیکن بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اگست 2021ء میں ہوا۔ جس ذلت آمیز انداز میں امریکی افواج کا انخلاء ہوا اس کی وجہ سے امریکہ کی عسکری اشرافیہ ہی نہیں بلکہ افغانستان میں کئی برسوں تک تعینات رہے عام سپاہیوں کے اذہان میں بھی دوحہ مذکرات اور زلمے خلیل زاد کے بارے میں نفرت انگیز سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ زلمے کو ایک بار پھر "گوشہ نشین" ہونا پڑا۔
ٹرمپ کی وائٹ ہائوس واپسی کے بعد سے زلمے خلیل زاد مگر سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہوچکا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم سے تواتر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ اسے یہ گمان تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی ڈونلڈٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھائیں گے۔ ممکنہ دبائو کی بدولت عمران خان رہا ہوگئے تو زلمے کی بھی پاکستان اور افغانستان کے ساتھ رابطے استوار کرنے کے حوالے سے لاٹری نکل آئے گی۔ ٹرمپ نے لیکن اسے نظرانداز کئے رکھا۔ اپنے دوسرے دور صدارت میں وہ عموماََ ان لوگوں کو اہم عہدے دینے سے گریز برت رہا ہے جو گزشتہ دورِ صدارت میں اس کی ٹیم میں شامل تھے۔
اس کی پرانی ٹیم میں لیکن آدم بوہلر (Boehler Adam) نام کا ایک معاون بھی شامل تھا۔ اسے ٹرمپ نے غیر ملکوں میں گرفتار ہوئے امریکی شہریوں کی رہائی کیلئے اپنا خصوصی سفیر متعین کیا ہے۔ 13ستمبر کو یہ سفیر کابل پہنچ گیا۔ زلمے خلیل زاد بھی اس کے ہمراہ تھا۔ آدم بوہلرکے ساتھ زلمے کی تصویر دیکھ کر مجھے زلمے کی موقعہ پرستی شدت سے یاد آگئی۔ نظر بظاہر وہ اپنے پرانے مناصب کا مقام بھلاکر ایک اور خصوصی سفیر کا "معاون یا مترجم" نظر آرہا تھا۔ طویل عرصے کے بعد زلمے کی کابل میں موجودگی نے افغانستان کے سنجیدہ حلقوں کو مگر بہت سے سوال اٹھانے کو مجبور کردیا ہے۔ گل بدین حکمت یار افغانستان کا سینئر ترین "مجاہد" رہا ہے۔ اس کی جماعت کے سرکاری ترجمان جریدے "شمشاد" نے زلمے کی تصویر دیکھ کر یہ دعویٰ کردیا کہ وہ افغانستان کا "بادشاہ" بننے کے چکر میں ہے۔
افغانستان کے حوالے سے زلمے کے جوارمان ہیں مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ میرا ماتھا توپیر کے روز اس کا ایکس پر لکھا پیغام پڑھتے ہوئے ٹھنکا ہے۔ مذکورہ پیغام کے ذریعے زلمے خلیل زاد نے طنزیہ انداز میں پاکستان کی "اسٹیبلشمنٹ" کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے دوران وہ بارہاواشنگٹن کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ افغانستان کا "فوجی حل" ڈھونڈنا وقت اور وسائل کا زیاں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کوئی سیاسی حل ڈھونڈا جائے۔
پاکستان کو اس کی پرانی سوچ یاد دلانے کے بعد زلمے نے اس امرپر منافقانہ پریشانی کا اظہار کیا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور "پاکستانی طالبان" کے مابین جنگی جھڑپوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی وجہ سے دونوں فریقین میں ہلاک شدگان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ افغانستان (یعنی طالبان) کی مدد سے "پاکستانی طالبان" کے ساتھ مذاکرات کی راہ ڈھونڈے اور معاملے کو "سیاسی طور" پرحل کرے۔ قصہ مختصر زلمے خلیل زاد ریاستِ پاکستان کو دہشت گردوں کے روبرو سرنگوں ہونے کا "مشورہ" دیتے ہوئے "پرانے حساب" برابر کررہا ہے۔ پاکستان کی ذلت ورسوائی اس کا حتمی ہدف ہے اور زلمے خلیل زاد مرتے دم تک اس ہدف کے حصول کے لئے متحرک رہے گا۔