وحید الرحمن خان سے صرف ایک ملاقات ہے۔ ذہین آنکھیں رکھنے والا نوجوان۔ بڑے اطمینان سے، نیلے رنگ کی ایک کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔ اندازہ نہیں تھا کہ ناول لکھتے ہیں یا افسانہ نگار ہیں یا شاعری فرماتے ہیں۔ حسب عادت کتاب، کو اپنی اسٹڈی میں رکھ کر بھول گیا۔
ایک دو دن پہلے نظر پڑی تو ٹائٹل پر "خامہ خرابیاں" درج تھا اور نیچے برادرم وحید کی ایک شوخ سی تصویر تھی۔ معلوم پڑا کہ وہ تو مزاح نگار ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بلا کا مزاح لکھتے ہیں۔ آج کے حددرجہ پرآشوب اور مصنوعی دور میں، طنز ومزاح کی جانب رجوع کرنا، ہر خاص وعام کا کام نہیں۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو ایک جہان حیرت وا ہوگیا۔ زبان پر مکمل عبور ہونے کے ساتھ ساتھ حددرجہ شائستہ تحریر سامنے آئی۔
ادنیٰ پن کا سایہ تک اس خوبصورت کتاب پر نہیں پڑنے دیا گیا۔ یقین فرمایئے اس کتاب کے مضامین پڑھنے کے بعد طبیعت شگفتہ سی ہوگئی۔ زوال تو خیر پورے معاشرے کو جکڑ چکا ہے۔ بالکل اسی طرح ادب بھی کافی حد تک مشکلات کا شکار ہے۔ ہزاروں شاعر، موجود ہیں۔ مگر اچھا شعر سنے ہوئے عرصہ گزر جاتا ہے۔ چند پرانے صاحبان ہیں، جو عرصہ دراز پہلے لکھی ہوئی نظموں اور غزلوں کی داد سمیٹ رہے ہیں۔ چلئے یہ بھی غنیمت ہے۔ مگر مزاح نگاری کا ادب تو بہت زیادہ سمٹ چکا ہے۔ اس فکری قحط میں برادرم وحید ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
اب ذرا کتاب کے بارے میں عرض کرتا چلوں۔ چند اقتباسات پیش کر دوں۔
درپیش لفظ: یہ مضامین بنیادی طور پر "تبصرۂ کتب" کی ذیل میں آتے ہیں لیکن ان میں مصنّفین کتب کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ یوں اس تصنیف میں بہت سی دیگر خامہ خرابیوں کے علاوہ خاکہ مستی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ ان تحریروں میں کہیں کہیں تنقید کے سنجیدہ نمونے بھی آ گئے ہیں جنھیں اگر سنجیدگی سے نہ پڑھا جائے تو پرلطف نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
لیلیٰ کی سہیلی: صوفیہ بیدار کے متعلق لکھتے ہیں: رنگریز صوفیہ بیدار کا اولین افسانوی مجموعہ ہے اور اس میں انھوں نے لیلیٰ کا افسانہ سنایا ہے۔ میں نے یہ افسانہ بہت دلچسپی سے سنا ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں:
سنتا ہوں بڑے شوق سے "افسانۂ لیلیٰ"
کچھ اصل ہے، کچھ خواب ہے، کچھ طرز ادا ہے
صوفیہ بیدار نے بہت شوق سے لیلیٰ کی محبت کا افسانہ پیش کیا ہے، ہمیں لیلیٰ کے احساسات سے آشنا کیا ہے اور لیلیٰ کے جذبات کو زبان دی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ہجر میں لیلیٰ پر کیا صدمے گزرے ہیں اور وصل میں کیسے کیسے اندیشے ستاتے ہیں۔ صوفیہ نے کان لگا کر لیلیٰ کے دل کی دھڑکنوں کو سنا ہے اور اس صدائے دل کو ہمیں بھی سنایا ہے۔
شہر سے بڑا آدمی: اسلم انصاری تخلیق کے سفر میں قید مقام سے گزر گئے تھے۔ انھوں نے فارسی میں سخن وری کی اور فرنگ کی زبان میں بھی۔ انھوں نے انگریزی زبان میں بھی ایک شعری مجموعہ تخلیق کیا اور یوں اپنا ایک ذہنی وتخلیقی رشتہ مغرب کی شعری وعلمی روایت سے قائم کیا۔
حال ہی میں ان کا فارسی دیوان "گلبانگ آرزو" نقش ہائے رنگ کے لیے ظاہر ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک وہند میں علامہ اقبال کے بعد اسلم انصاری فارسی شاعری کے سب سے اہم شاعر ہیں۔ ان کے فارسی کلام کی خوش بو شہر ملتان سے شیراز کے گلستان تک جا پہنچی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی، شہر سے بڑا ہو جاتا ہے۔ اسلم انصاری صاحب بھی اپنے شہر سے بڑے ہو گئے تھے۔ یہ شہر طلسمات، ان کے شہر دل میں بستا تھا۔ اسی لیے تو انھوں نے کہا تھا:
وسعت عالم ایک طرف، ملتانِ معلی ایک طرف
سچ پوچھو تو ہم لوگوں کو شہر ہمارا کافی ہے
سرمایۂ افتخار: ساہیوال کی صرف گائے ہی نہیں، شاعر بھی مشہور ہیں۔ خدا نے دونوں کو مختلف کام سونپے ہیں۔ گائے دودھ دیتی ہے، شاعری نہیں کر سکتی جب کہ شاعر شعر کہتے ہیں لیکن دودھ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ساہیوال میں ہونے والی شاعری خالص دودھ کی طرح شیریں ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس شہر کی شعری روایت کی تشکیل میں مجید امجد جیسے بلند پایہ نظم نگار شامل رہے ہیں۔ اب یہ روایت نوجوان شاعروں تک آ پہنچی ہے جن میں ایک نام افتخار شفیع کا بھی ہے۔ ایک ماہ قبل اس کی اولین شعری تصنیف نیلے چاند کی رات کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور ہمیں اس عنوان سے معلوم ہوا کہ چاند "نیلا پیلا" بھی ہوتا ہے۔
پست قامت شاعر: طارق ہاشمی سے دوستی کی ایک وجہ شاعری تھی۔ وہ شاعر تھا اور میں ایک صابر اور ہمدرد سامع، چنانچہ ان بے گناہ کانوں نے زبانِ شاعر سے بہت سا تازہ اور باسی کلام سماعت کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ شنیدہ غزلیں اب کتاب کی شکل میں شائع ہوگئی ہیں۔ "دل دسواں سیارہ ہے" طارق ہاشمی کا نیا شعری مجموعہ ہے، جس میں میری کئی پسندیدہ غزلیں شامل ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
ہم نفس! قریۂ پرنور کے رہنے والے!
ایک مدھم سا دیا ہو، ترے کس کام کا ہوں
چھیڑ یار سے چلی جائے اسد: جمیل احمد عدیل نے کتاب کے آغاز میں "سرائے کالم گیر میں پہلا پڑاؤ" کے عنوان سے ایک دلچسپ دیباچہ بھی تحریر کیا ہے۔ دیباچہ میں انھوں نے پرلطف پیرائے میں اپنی کالم نویسی کے آغاز کا قصہ بھی بیان کیا ہے۔ یہ قصہ جمیل کی زبانی سنتے ہیں: "رفیق دیرینہ، عطر فتنہ اشفاق احمد ورک نے جب کالم نگاری کا ڈول ڈالا تو ہم نے اسے طعنہ دیا "بالآخر تم بھی گالم گلوچ پر اتر ہی آئے"۔ اس کا بے ساختہ قہقہہ ہمارے نوکیلے فقرے کا تریاق ثابت ہوا۔ ایک روز کہنے لگا "تمہارے اندر اتنی وِٹ (Wit) ہے، کالم کیوں نہیں لکھتے؟" ہم سادہ خاطر کہ اس کے "کلمہ توصیفی" سے دھوکہ کھا گئے اور فوراً ہامی بھر لی"۔
جوہر آباد کا جوہر قابل:
اس سے بڑھ کر اور کیا ہم پر ستم ہوگا منیر
مشورہ مانگا ہے اس نے فیصلہ کرنے کے بعد
صاحبو، یہ خوبصورت شعر منیر نیازی کا نہیں، بدر منیر کا ہے۔ یقیناََ آپ کو تجسس ہوگا کہ یہ کون ذاتِ شریف ہیں؟ تو ہم تعارف کرائے دیتے ہیں کہ بدرمنیر جوہر آباد کے جوہر قابل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اب تک "شانِ کئی" سے محروم ہیں۔ بدر منیر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
مقامی کالج میں اردو کے استاد ہیں۔ شہر میں سیکڑوں شاگرد اپنے سینوں پر ان کا داغِ تلمذ نشانِ حیدر کی طرح سجائے پھرتے ہیں۔ کالج کے استاد کے لیے ایم اے کی حد تک تعلیم کافی ہوتی ہے لیکن بدر منیر نے علم کی طلب میں ایم فل کا ہفت خواں بھی طے کر ڈالا۔ اس اضافی تعلیم نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بال تک بیکا نہیں ہوا۔ وہ نہ سر سے گنجے ہوئے اور نہ ان کی بینائی کمزور ہوئی۔ ورنہ عام طور پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کی راہوں کے مسافر جوانی ہی میں بڈھے کھوسٹ ہو جاتے ہیں، نہ منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت! لیکن بدر منیر کے ساتھ ایسا کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
شعیب احمد، "سوغات" بدست: شعیب احمد ایک ایسا ہی مترجم ہے جو تخلیقی تجربے کی لذت اور کرب سے آشنا ہے۔ وہ اردو کا ایک عمدہ شاعر ہے اور افسانہ نگار بھی، گویا، ایک کریلا، دوسرا نیم چڑھا! فارسی میں ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے: دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را! بہرحال نیم یا کریلے کا ذائقہ ہو یا مجنوں کی زندگی، سب میں تلخی ضرور پائی جاتی ہے لیکن شعیب احمد کا نباتات یا مجنوں کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی شخصیت میں تلخی یا ترشی کا شائبہ تک نہیں۔ وہ ایک شیریں اطوار شخص ہے اور کیوں نہ ہو کہ فارسی جیسی شیریں زبان کا استاد ہے۔
شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ "استادی" نے بھی اس کی مترجمانہ صلاحیتوں کو خوب نکھارا ہے، اسی لیے تو ڈاکٹر معین نظامی نے لکھا ہے: "شعیب احمد میں وہ تمام "فنی خرابیاں" بہ یک وقت موجود ہیں جن کا کسی ایک شخص میں پایا جانا نادر الوقوع ہے۔ ان میں سے آدھی خصوصیات بھی اگر کسی میں ہوں تو وہ اچھا خاصا کامیاب ترجمہ نگار بن سکتا ہے"۔ شعیب احمد اپنی "فنی خرابیوں" کے باعث سوغات کے نام سے تراجم کی ایک عمدہ کتاب تصنیف کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔