اسلام آباد میں ایک نوجوان پولیس افسر کا اپنے ہاتھوں سے خود کو مارنے کا فیصلہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ ہم سب سے بڑھ کر اس کی فیملی، دوستوں اور کولیگز کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اپنی جان لینے کا تصور ہی خوفناک ہے خصوصا جب آپ ایک چھوٹی بیٹی کے باپ بھی ہوں۔
ہر پروفیشن میں مشکلات ہیں۔ ہر کام میں روزانہ کی بیناد پر آپ پر دبائو پڑتا ہے۔ کوئی آپ کی زندگی مشکل بنا رہا ہے تو کسی کی آپ نے بنائی ہوئی ہے۔ ہم سب انسانوں کے روز درجنوں دفعہ موڈ سوئنگز ہوتے رہتے ہیں اور ہر نیا دن ایک نیا چیلنج لے کر آتا ہے۔ آپ نئے سرے سے صبح سویرے اٹھ کر زندگی سے لڑنے نکل جاتے ہیں۔
کہیں آپ کو باس اچھے نہیں ملتے تو کہیں آپ خود اچھے باس نہیں نکلتے۔ کہیں آپ اپنے باس کی وجہ سے تنگ ہیں تو کوئی آپ سے تنگ ہے جن کے آپ باس ہیں۔
میرے ٹی وی شو /فیس بک پیج کی ٹیم کے آٹھ دس ممبران گواہ ہیں کہ میں کسی پر شائوٹ نہیں کرتا نہ کبھی کسی کو گالی دی۔ ان کی پروفیشنل غلطیوں پر میرا منہ ضرور بن جاتا ہے۔ تھوڑی بہت زبانی سمجھانے کے انداز میں گوشمالی بھی کر لیتا ہوں اور کچھ دیر بعد احساس ہوتا ہے اب یہ بندہ یا بندی گھر جا کر بچوں پر غصہ اتاریں گے۔ میں انہیں گھر جانے سے پہلے بلا کر گپ شپ اور نارمل کرکے بھیجتا ہوں کہ یہ گھر جا کر بیوی بچوں پر غصہ نہ کریں یا راستے میں کسی سے نہ لڑیں۔
ہم سب اپنا غصہ ٹرانسفر کرتے رہتے ہیں۔ میری کوشش رہی میری وجہ سے ان کا غصہ آگے ٹرانسفر نہ ہو۔ یہ بات کرنے کی وجہ اپنی بڑائی بیان کرنا نہیں ہے بلکہ بتانا ہے آپ ٹیم چلا رہے ہوں تو آپ کو کیسے سلوک رکھنا ہے کہ آپ کی وجہ سے کوئی اپنی زندگی سے تنگ نہ ہو۔
اس سے بڑھ کر اہم بات ہے زندگی میں وہی جاب کریں جو آپ کو پسند ہے۔ محض وردی یا طاقت یا رعب میں کوئی پروفیشن نہ اپنائیں ورنہ ایک دن وہ آئے گا کہ زندگی میں کشش ختم ہوجائے گی۔ آپ کو لگے گا آپ دوسروں کی خوشی اور پیسہ کمانے کے لیے زندہ ہیں اور یہ بات بھی آپ کو ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔
بچوں کو ان کی مرضی کے پروفیشن کا انتخاب کرنے دیں۔ ان پر دبائو نہ ڈالیں کہ انہوں نے کیا بننا ہے۔ فطرت نے انہیں جس کام کے لیے ان کے اندر پروگرامنگ کرکے بھیجا ہے وہی کرنے دیں۔ وہ عمر بھر خوش بھی رہے گا۔
ایک اسٹڈی مطابق تین پروفیشن ایسے ہیں جو سب سے زیادہ اسٹریس والے ہیں اور ان کی عمریں بہت کم ہوتی ہیں۔ پولیس، ڈاکٹر اور صحافی۔
یہ تینوں وہ پروفیشن ہیں جن کا کوئی وقت مقرر نہیں کہ صبح نو بجے گئے اور شام کو پانچ بجے واپس۔ ان سب کا عوام سے سب سے زیادہ انٹرایکشن رہتا ہے۔ اسٹریس اور بے خوابی جیسے مسائل سب سے زیادہ ان کے ہوتے ہیں۔ اکثر شوگر اور ہارٹ اٹیکس کا سامنا کرتے ہیں۔
پولیس کا جاب ویسے ہی مختلف ہے جس نے لاء اینڈ آڈر اور جرائم پیشہ افراد کا سامنا کرنا ہے۔ اس کے لیے مختلف ذہن اور جسم درکار ہے۔
کچھ برس پہلے ایک اچھے پولیس افسر سے بات ہورہی تھی تو کسی نے کہا پولیس کو عوام فرینڈلی ہونا چائیے۔ وہ بولے پاکستان جیسے ملکوں میں پولیس افسر کو فرینڈلی سے زیادہ ذہنی اور جسمانی طور پر ٹف ہونا پڑتا ہے۔ محض وردی پہن لینا کافی نہیں ہے۔ زیادہ حساس انسان پاکستان جیسے ملکوں میں نہیں چل پاتا پولیس میں تو بالکل نہیں۔ پولیس جاب اسان کام نہیں جہاں ڈیوٹی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ عوام کے سخت ردعمل کا ہر وقت سامنا کرنا پڑتاہے، میڈیا اورسیاسی حکمرانوں کا الگ سے پریشر۔۔
اگر پولیس افسر/اہلکار ذہنی اور جسمانی طور پر ٹف نہیں تو وہ خود محفوظ رہے گا نہ عوام کو محفوظ رکھ سکے گا۔