Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Rauf Klasra/
  3. Aik Dard Hai, Jo Dil Se Nahi Jata

Aik Dard Hai, Jo Dil Se Nahi Jata

لاہور سے تعلق رکھنے والے حسنین اقبال فیس بک پر میرے دوست ہیں۔ بڑے اچھے اور دل کے صاف انسان ہیں۔ جو وہ سوچتے ہیں وہی لکھتے اور بولتے ہیں۔ اگرچہ ان سے میری بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن اکثر ہماری فون پر گپ شپ لگتی رہتی ہے کہ وہ بھی دل جلے ہیں اور ملکی حالات پر دل جلاتے رہتے ہیں۔

آج ان کی فیس بک وال پر پڑھا کہ لاہور میں ان کے ایک قریبی دوست شیخ صاحب ہیں جو پہلے گلبرگ میں رہتے تھے وہ اب ڈی ایچ اے چلے گئے ہیں۔ ان کے والد، جن کی عمر 92 برس ہے، وہ اب بیٹے کے نئے گھر میں بیٹھ کر اپنے پرانے گھر اور اس میں لگے درختوں کو مِس کرتے ہیں جن کے ساتھ ان کی عمر گزری۔ شیخ صاحب اگرچہ اپنے والد کے ساتھ وقت بھی گزارتے ہیں تاکہ انہیں کمپنی ملتی رہے لیکن ان کے والد کی اپنے پرانے درختوں سے جڑی مونجھ (اداسی) نہیں جاتی۔

میں پہلے سمجھتا تھا کہ بچے والدین کی محنت سے جب زندگی میں آگے جاتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو وہ آسائشیں دیں جو اُن کی زندگی کو آسان کریں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ اپنے تئیں جو آسائشیں اپنے والدین کیلئے تلاش کرتے ہیں وہ اس عمر میں ان کیلئے آسائشیں نہیں بلکہ آزمائشیں بن جاتی ہیں۔

مجھے اس کا تجربہ چند برس پہلے ہوا جب ورجینیا میں میرے اوکاڑہ کے دوست اکبر چودھری نے مجھے ایک پاکستانی سے ملوایا جن کا تعلق کراچی سے تھا اور اُس وقت وہ وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے۔ بڑے اچھے، پڑھے لکھے اور انتہائی سلجھے ہوئے انسان۔ ان سے کافی موضوعات پر کافی دیر بات چیت ہوتی رہی، امریکہ اور امریکی عوام پر۔ باتوں باتوں میں پوچھا کہ خدا نے آپ کو اتنی عزت دی، کسی چیز کا پچھتاوا؟

ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور کہنے لگے کہ ایک درد ہے، ایک تکلیف ہے جو دل سے نہیں جاتی۔ ان کے والد کراچی میں پولیس میں تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے تو وہ انہیں واشنگٹن لے آئے کہ اب ان کا وہاں کون خیال رکھے گا۔ کہنے لگے: میرا خیال تھا کہ وہ واشنگٹن جیسے خوبصورت شہر میں زندگی کو انجوائے کریں گے لیکن وہ ان کیلئے تکلیف دہ دن تھے۔ وہ سارا دن کراچی کی گلیوں، اپنے پرانے دوستوں، آتے جاتے مہمانوں کو بہت مِس کرتے تھے۔ آخری عمر میں ان کو بھلا واشنگٹن سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔

انہوں نے آخری دن اذیت میں گزارے اور میں خودکو ان کا مجرم سمجھتا ہوں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان جہاں جوان ہوتا ہے وہیں بوڑھا ہو کر رہنا اسے اچھا لگتا ہے، جہاں اس کی یادیں بکھری ہوتی ہیں۔ اسے نئے گھر، نئے شہر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ کراچی کی گندی گلیاں یا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی واشنگٹن جیسے خوبصورت شہر سے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔

یاد آیا کہ جب ہندوستان میں کپور خاندان کے ایک بڑے فلمی ستارے کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو فیملی نے کہا کہ آپ کو علاج کیلئے لندن لے چلتے ہیں تو اس نے جواب دیا تھا کہ یہ وقت لندن جانے کا نہیں، اپنے گھر جانے کا ہے، مجھے اپنے گھر لے چلو اور اس نے وہیں اپنی آخری مطمئن سانس لی۔

میرے میانوالی کے دوست ڈاکٹر شیر افگن کو 2012ء میں جگر کا کینسر ہوا۔ خود ڈاکٹر تھے پتہ تھا کہ بس چند ماہ باقی ہیں۔ اسلام آباد علاج کیلئے آنے سے پہلے قبرستان گئے۔ قبر کی جگہ منتخب کی۔ کچھ عرصہ علاج چلا۔ ایک دن ہسپتال میں گھر والوں کو کہا کافی علاج ہوگیا مجھے اسلام آباد سے واپس میانوالی لے جاؤ۔ میں بچپن کے پرانے دوستوں کے درمیان مرنا چاہتا ہوں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran