آج عرفان صدیقی صاحب کے جنازے میں شرکت کے لیے ایچ الیون قبرستان گیا۔ ہمارے پیارے شاہد صدیقی کے بھائی ہونے کی وجہ سے بھی ان سے تعلق تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میری عرفان صدیقی صاحب سے آشنائی 2006 میں لندن میں ہوئی تھی اور ان کی وجہ سے شاہد صدیقی صاحب کے ساتھ شاید 2016/2017 میں ملاقات ہوئی اور ان سے ایسا شاندار تعلق بنا کہ اب بھائیوں والا تعلق ہے۔ ایک خوبصورت اور شاندار لٹریری انسان۔
عرفان صدیقی صاحب خود بھی اچھی اردو لکھتے تھے اور دوسروں کے کالموں کی تعریف بھی کرتے تھے۔ ان کے اپنے سیاسی خیالات تھے جس پر ہمارا ہمیشہ اختلاف رہا لیکن ان سے ذاتی تعلق اور احترام میں کبھی کمی نہ آئی۔ جب بھی ملتے تو مسکرا کر کہتے کلاسرا بھائی ہمارا بھائی شاہد صدیقی آپ کو لے اڑا۔
ان سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وہ بات سیلقے اور تہذیب سے کرتے تھے۔
وہیں جنازے کے بعد ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا رئوف صاحب مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میں نے کہا جی ضرور۔ کہنے لگے میں آپ کو پڑھتا ہوں۔ مجھے بتائیں ایک حساس بندہ اس معاشرے میں کیسے زندہ رہے؟
میں یہ سوال سن کر ٹھٹک کر رہ گیا۔ ان برسوں میں سینکڑوں لوگوں نے روک کر سوال پوچھے ہوں گے لیکن ایسا سوال آج تک کسی نے نہیں کیا تھا؟
میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ میں نے کہا آپ خوش قسمت انسان ہیں کہ آپ کا دل حساس ہے۔ آپ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے چاہے وہ جانور ہو یا انسان۔ آپ کسی کو تکلیف نہیں دیتے ہوں گے۔ لوگ آپ کو سادہ بیوقوف سمجھ کر استمعال بھی کرتے ہوں گے، کئی سچی جھوٹی کہانیاں سنا کر آپ کی جیب خالی کرتے ہوں گے۔ آپ کیوں دکھی ہوتے ہیں۔ استمعال اسے کیا جاتا ہے جس کے پاس دوسروں کو فائدہ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جسے خدا نے کچھ عطا کیا ہوتا ہے تو ہی دوسرے لوگ اسے بیوقوف بنانے چل پڑتے ہیں۔
اس بندے نے میری طرف دیکھا اور دکھ سے بولا لیکن لوگ میری حساسیت کا بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میں ہنس پڑا اور بولا اور جب آپ کو علم ہے تو فائدہ کیوں اٹھانے دیتے ہیں؟
میں نے کہا اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ آپ کو خدا نے ایسے ہی بنایا ہے۔۔ سادہ اور حساس دل کا مالک۔ آپ اپنے ساتھ صلح کر لیں۔ اپنے مزاج کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں۔ آپ ایسے ہی ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ قدرت نے آپ کو اس دنیا میں بیلنس کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ یہ دنیا ہوشیار چالاک مکار لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ چند لوگوں کو تو حساس سادہ یا دوسرے لفظوں میں بیوقوف بھی ہونا چائیے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اگر پوری دنیا ہی بے رحم، بے حس، سخت دل، crook اور مکار لوگوں سے بھرجائے تو زرا سوچیں اس دنیا کا کیا حشر ہو؟
وہ بولا لیکن میں کوشش کے باوجود اس حساسیت سے جان نہیں چھڑا پاتا۔
میں نے کہا آج کے بعد آپ نے یہ کوشش نہیں کرنی۔ قدرت کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ ایزی رہیں اور اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزاریں۔ خوش رہیں گے۔ آپ چلاک بننے کی کوشش نہ کریں، ناکام ہوں گے۔
اس کی آنکھوں میں چمک ابھری۔
میں نے کہا آخری بات سن لیں۔ ایران کے کسی پرانے بادشاہ کی کہانی پڑھی تھی کہ خدا مجھے حساس اور محبت بھرے دل اور سلطنت کی بادشاہی میں سے ایک چننے کا انتخاب دیتا تو میں حساس اور کیرنگ دل کو ترجیح دوں گا۔
اچانک اس بندے نے سکون کا بڑا سانس لیا اور مجھے گلے لگایا۔ میں نے اس کا ہاتھ دبایا اور کہا آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس معاشرے میں بے رحم یا بے حس نہیں ہیں۔ اپنی اس خوش نصیبی پر فخر کیا کریں، ڈپریس نہیں۔ جو کام قدرت نے آپ کے ذمے لگایا ہے۔ اپنی حساسیت کے ہاتھوں دوسروں کے ہاتھوں exploit ہوتے رہیں اور خوش رہیں۔ انہیں اپنا کام کرنے دیں آپ اپنا کریں۔ قدرت کے کاموں میں مداخلت نہ کریں۔
اس کے چہرے پر سکون ابھرا اور میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔