Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Rauf Klasra/
  3. Aik Press Card Aur Aik Ahelkaar Ki Kahani

Aik Press Card Aur Aik Ahelkaar Ki Kahani

دو دن پہلے اسمبلی گیا۔ میرے پاس اسمبلی کا کارڈ ہوتا ہے۔ وہ مین گیٹ پر گارڈ کو چیک کرایا اور گاڑی اندر پارکنگ میں لے گیا۔ میرا کارڈ فرنٹ سیٹ پر پڑا رہ گیا اور مجھے دھیان نہ رہا اور گاڑی پارک کرکے اسمبلی کے اندرونی گیٹ کی طرف چل پڑا۔

جب اسمبلی کے اندرونی گیٹ پر پہنچا تو وہاں سیکورٹی اہلکار نے کارڈ مانگا۔ مجھے یاد آیا کہ کارڈ تو گاڑی میں رہ گیا ہے۔

میں 2002 سے پارلیمنٹ کور کررہا ہوں اور اب ان برسوں میں اکثر پارلیمنٹ کے سرکاری اہلکار جانتے ہیں لہذا کئی دفعہ ہوا مسکرا کر ایک دوسرے کو دعا سلام کی اور گزر گئے۔

اس کے باوجود میں نے ہمیشہ بٹوے میں کارڈ ضرور رکھا اور گیٹ پر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا تھا کہ کوئی اہکار کسی وقت بھی مانگ سکتا ہے۔

مجھے ہمیشہ self respect کا خیال رہتا ہے یا یوں کہہ لیں کچھ زیادہ ہی حساس ہوں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں اپنی عزت بندے کے اپنے ہاتھ ہوتی ہے لہذا بہت ساری باتوں کو اپنا حق نہ سمجھ لیا کریں اور تھوڑی سی زحمت کر لیں تو بہت ساری ذہنی مشکلات سے بچے رہیں گے۔

میں تو اس بارے میں اتنا حساس رہا ہوں کہ بہاولپور میں نعیم بھائی کے آئی وارڈ آفس میں بھی باقاعدہ ان کے آفس بوائے کو کہتا تھا کہ پتہ کرو وہ فارغ ہیں؟ دروازہ کھول کر اندر نہیں جاتا تھا کہ چلو خیر ہے اپنا بھائی ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ کتنا یارانہ تھا۔ وہ چٹ والے افسر نہیں تھے بلکہ جس کا دل کرے آفس دروزاہ کھول کر چلا جائے۔ لیکن میں نے ہمیشہ ان کے سرکاری آفس سیکرٹری کو نام لکھ کر دیا کہ پہلے اندر بھیجیں۔ بلائیں گے تو جائوں گا۔

وہ ہنستا تھا کہ آپ اکیلے اس تکلف میں پڑتے ہیں۔ میں کہتا ہوسکتا ہے وہ میٹنگ میں ہوں، اگر اتنا ہی انہوں کہہ دیا کہ رئوف زرا باہر انتطار کریں بلاتا ہوں تو مجھے بہت شرمندگی ہوگی۔

ڈاکٹر صاحب بھی میرے اس رویہ سے آپ سیٹ ہوتے تھے لیکن یہ مزاج آج تک ہے۔

خیر بات ہورہی تھی پارلیمنٹ سیکورٹی اہلکار کی۔

اس نے مجھے دیکھا اور پوچھا کارڈ؟

میں نے کہا کارڈ تو گاڑی میں رہ گیا ہے۔

اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا تو پھر جا کر لے آئیں۔

اسے لگا کہ شاید غلط بیانی کررہا ہوں۔ بہانہ بنا رہا ہوں۔ اس کا شک بھی ٹھیک تھا کہ بھائی آپ پارلیمنٹُ آرہے ہیں اور کارڈ گاڑی میں رکھ آئے۔

صحافی اکثر اس طرح روکے جانے یا کارڈ دکھانے کو اپنی توہین سمجھتے اور بحث کرتے ہیں۔ کارڈ بٹوے میں بھی ہو تو بھی نکال کر دکھانے کو بھی اپنی بے عزتی تصور کرتے ہیں۔ اکثر سپاہیوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ مناظر مجھے ہمیشہ ڈائون کرتے ہیں۔

میں سرکاری اہلکاروں، پولیس گارڈز یا ڈیوٹی اہلکاروں سے بحث نہیں کرتا۔ ان کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے۔ آخر کسی کام کے لیے وہ بھی کھڑے ہیں۔ مجھے کوئی روک دے گا یہاں سے نہیں جاسکتے تو بھی چپکے سے گاڑی موڑ لوں گا۔

خیر مجھے شرمندگی ہوئی کہ غلطی میری تھی۔ آج ہی کارڈ گاڑی میں رہنا تھا۔

گاڑی پارکنگ میں خاصے فاصلے پر پارک تھی۔ میں نے اس اہلکار سے بحث یا تعارف پر واپس جانے کو ترجیح دی کہ مجھے لگا جب ایک چیز میرے پاس ہے تو میں دو تین منٹ منت ترلے میں کیوں لگائوں۔ مجھے ویسے بھی واک کرنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔

میں وہیں سے مڑ کر واپس پارکنگ گیا۔ گاڑی سے کارڈ نکالا اور واپس گیٹ پر آیا۔ میرے ہاتھ میں کارڈ تھا۔ اہلکار کو مجھے واپس آتے دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی کہ اس کا خیال تھا یہ سب بہانہ تھا۔ اس دفعہ اس نے مجھ سے کارڈ نہیں مانگا۔

مجھے مسکراہٹ دی اور بولا تھینک یو۔

وہ چاہتا تو مجھے بھی موقع دے سکتا تھا کہ میں اسے صبح سویرے تھینک یو کہتا لیکن شاید اس نے مجھے تھینک یو کہنا تھا۔۔ یا اس نے تھینک یو اس لیے بھی کہا تھا کہ میں نے اس سے بحث نہیں کی، اس کی اتھارٹی کا احترام کیا اور اپنا کارڈ گاڑی سے نکال لایا تھا۔

اس اہلکار کے چہرے پر ابھری خوبصورت مسکراہٹ اسمبلی ہال کی پریس گیلری تک میرے ساتھ رہی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran