عرصہ ہوا نصیر احمد ناصر صاحب کا میسج آیا کہ ادبی میگزین "تسطیر " کے لیے میں اپنی کوئی تحریر بھیجوں اور کچھ نہیں تو کوئی ترجمہ ہی بھیج دوں۔ جو لوگ یا ادارے آج کے دور میں ادبی رسالے چھاپتے ہیں یقین کریں میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ آج کے دور میں پہلے ادیب، شاعر، لکھاری ڈھونڈنا اور پھر انہیں شائع کرنا ایک بڑا کام ہے۔ شاعر تو ابھی بھی بہت ملتے ہیں اور یقیناََ اچھے شاعر موجود ہیں لیکن اچھی نثر اور اچھا ادب لکھنے والے آٹے میں نمک کے برابر۔
اچھی کہانی تو ویسے بھی غائب ہوگئی ہے۔ کہاں اب ابوالفضل صدیقی یا قاضی عبدالستار ملتے ہیں۔ مجھے "نقوش" سے عشق رہا ہے اور میں نے پرانے شمارے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خریدے اور ان میں چھپے بڑے لکھاریوں کا کوئی نہ کوئی افسانہ پڑھتا ہوں۔
میں نقوش کے مدیر محمد طفیل کا بڑا قدر دان ہوں۔ انہوں نے شاید پچاس کی دہائی کے کسی ایک رسالے میں لکھا اچھی کہانی نہیں لکھی جارہی۔ اب اندازہ کریں کہ وہ دور جسے ہم اردو ادب کا سہانا دور کہتے ہیں جب چوٹی کے پاکستانی اور ہندوستانی ادیب موجود تھے اس وقت بھی انہوں نے اچھی کہانی نہ ہونے کا گلہ کیا۔ برسوں بعد شکیل عادل زادہ صاحب کو کہا "سب رنگ" دوبارہ کیوں شروع نہیں کرتے تو بولے شروع تو کردوں لیکن کہانی کہاں سے لائوں۔
میں چپ ہوگیا اور پھر کبھی ان سے اصرار نہ کیا کہ سب رنگ شروع کریں۔ یقیناََ ہر پبلشر یا مدیر اس اذیت سے گزرتا ہوگا جس سے کبھی نقوش یا سب رنگ کے مدیر گزرے۔
نصیر احمد ناصر اور "تسطیر" کے پبلشر گگن شاہد اور امر شاہد کی عزت اس لیے بھی کی جانی چاہیے کہ اس دور میں آپ ایک خالص ادبی رسالہ نکال رہے ہیں جس کے گاہک مارکیٹ میں کم ہیں۔ کاروباری طور پر یہ فیصلہ گھاٹے کا ہے۔ آپ کو جیب سے خرچ کرنا ہوگا۔ منافع چھوڑیں شاید جو کچھ اس پر لگایا ہوگا وہ بھی پورا نہیں ہوگا۔
لیکن میں ہمیشہ ہر پبلشنگ ادارے سے کہتا ہوں کہ ادبی رسالے چھاپنا ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ انہیں ہر تین ماہ بعد چھوٹا بڑا ادبی رسالہ نکالنا چاہئیے۔ شاید ریڈنگز لاہور والے "سویرا" نکالتے ہیں۔ سویرا کے بھی کئی پرانے شمارے میرے پاس ہیں جب حنیف رامے جیسے بڑے لوگ موجود تھے۔
ہندوستان میں اشعر نجمی صاحب "ثبات" چھاپتے ہیں اور کیا کمال انتخاب اور معیار ہے۔
ملتان سے بھی ادبی رسالہ ڈاکٹر انوار احمد اور ان کے دو ہونہار شاگرد نکالتے آئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ ایک عظیم کوشش اور شاہکار ہے۔ لیکن جہلم بیٹھ کر ایسا ایک اچھا ادبی رسالہ چھاپنا یقیناََ ایک بڑا کارنامہ ہے جس پر نصیر صاحب اور گگن اور آمر کو مبارکبار دینی چاہئیے کہ ان حالات میں بھی وہ ادبی رسالوں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔
اس لیے جب نصیر صاحب کا میسج ملا تو یقین کریں اپنی تمام تر سستی اور ہزار بہانوں کے باوجود انکار کی جرات نہ کرسکا اور ایک عظیم روسی ادیب جسے 1933 میں ادب کا پہلا نوبل پرائز ملا تھا اس کی کہانی اردو میں ترجمہ کرکے بھیج دی اور بھول گیا۔ آج شمارہ ملا تو یاد آیا۔
ترجمہ کرنا ہمیشہ مشکل کام رہا ہے۔ اپنا لکھنا بہت آسان اور دوسرے کے لکھے کو اپنی زبان میں ڈھالنا بہت مشکل۔ اس کام میں کریڈٹ کم اور تنقید زیادہ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ترجمہ کرنا بہت ہی مشکل کام۔ اب اس مشکل کام سے میں گھبراتا ہوں لیکن نصیر صاحب کو انکار نہ ہوسکا اور مجھے دوبارہ شوقیہ کام کرنا پڑا۔
اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو ایسے رسالوں کو نہ مرنے دیں جیسے کبھی "نقوش" جیسا بڑا ادبی رسالہ ختم ہوا۔ انہیں خریدیں۔ کچھ ادب، ادیب اور شاعر اس معاشرے میں ہونے چاہیں۔
اگرچہ مجھے اس کہانی کا ترجمہ کیے کافی دن گزر گئے ہیں لیکن جنگ عظیم اول کے پس منظر میں لکھا گیا اس نوجوان دوشیزہ کا قصہ سر سے نہیں اترتا خصوصا اس حسینہ کے منگیتر کے محاذ جنگ روانگی کی آخری رات کے الوداعی منظر کے زیر اثر ہوں جسے وہ موت کے سفر پر وہ روانہ کررہی تھی۔۔
بعض کہانیاں آپ پر بیت جاتی ہیں۔ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب آپ خود اس کہانی کا کردار بن جاتے ہیں۔