جمرات کو ہمارے سرائیکی علاقوں میں پیروں فقیروں کا دن مانا جاتا ہے۔ اکثر دعا درود خیرات کھانا پینا اس دن ہی کیا جاتا ہے اور اسے مقدس دن مانا جاتا ہے۔
ہفتے میں ایک دن مجھے شفیق لغاری نے ملنا ہوتا ہے اور اس نے جمرات کا دن کا ہی انتخاب کر رکھا ہے۔
اس دن میں بھی رات گئے ہفتے کا اپنا آخری شو کرکے ریلکس ہوتا ہوں۔ سکون کا سانس لینے لگتا ہوں تو لغاری پر اپنے دفتر بیٹھے نظر پڑتی ہے تو اوپر کا سانس اوپر رہ جاتا ہے۔۔ وہی سردار یاد آتا ہے جس نے کیلے کا چلکھا دیکھ کر کہا تھا کہ ہائے او میرے ربا آج فیر فیسلنا پائو گا۔۔ (اسے لائٹ کمنٹ سمجھیں۔ لغاری اپنا پرانا جگر ہے)۔
خیر اکثر لغاری میرے لیے جمرات کے دن کو ذہن میں رکھ کر کوئی نہ کوئی میٹھی چیز لائے گا اور اسے پتہ ہے مجھے میٹھا پسند ہے۔ اب خیر میٹھا بہت کم کر دیا ہے۔ کبھی وہ دیسی گھی کی بنی جلبیاں تو کبھی گھر کی بنی کھیر تو کبھی کچھ اور میٹھا۔ یا پھر اس کی بیگم صاحبہ کی بنائی ہوئی دال/سبزی مجھے بہت پسند ہے تو وہ بنوا کر لائے گا جس کا ذائقہ کمال ہے کہ ہماری بہن اردو سپیکنگ گڑیانی پٹھان ہیں جو کئی دہائیاں پہلے تقسیم کے بعد دلی سے لیہ آن بسے آئے تھے۔
جب سے بہن کو علم ہوا مجھے دال پسند ہے تو وہ ہفتے میں ایک دن بھیجتی ہیں۔ ساتھ میں سالاد اور چٹنی بھی ہوتی ہے۔ میں دو دن وہ دال کھاتا ہوں۔
خیر آج لغاری لیہ کا مشہور راجن شاہ دربار پر بننے والا حلوہ لے آیا۔ اس نے لیہ سے منگوایا ہے۔ حلوہ واقعی بہت مزے کا تھا۔ میں نے کہا یار بڑا زبردست حلوہ ہے۔ لغاری بولا سارا دریائے سندھ کا کمال ہے۔ اب سندھ اور حلوے کا تعلق میں نے بھی نہیں پوچھا۔ ہر بات کا علم ہونا بھی عذاب ہے۔ چچا غالب یاد آئے کہ آم کھائو گھٹلیاں نہ کھائو۔ اس وقت سرائیکی کے بڑے شاعر اشو لال کی دریا سندھ پر شاہکار نظم کا ذکر ہوا۔۔
دریا او دریا توں ساڈا پیو ماں، اساں تیڈے پونگے۔۔
خیر کچھ حلوہ کھایا اور لغاری کو لیا اور پورے ستر منٹ تک جناح ایونیور پر رات ساڑھے نو بجے طویل واک کی۔
میں نے پوچھا بیٹی عدن خان کا کیاحال ہے۔ اس نے ابھی نمل یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر میں داخلہ لیا ہے۔
ہنس کر کہنے لگا وہ مجھے اکثر کہتی ہے بابا آپ کو انگریزی نہیں آتی۔
میں نے کہا میرے بچے بھی مجھے یہی کہتے ہیں کہ آپ بعض لفظوں کا تلفظ ٹھیک ادا نہیں کرتے۔
لغاری بولا تو پھر تم نے اپنے بچوں کو کیا جواب دیا؟
میں نے کہا عدن کو بتانا کہ بیٹا ساری عمر ہم نے لوگوں سے یہی طعنے سنے کہ تم پینڈو ٹاٹ سکول پروڈکٹ ہو تمہیں ٹھیک انگریزی بولنی نہیں آتی۔ اب کیا بتائیں کہ ہم تو کپ Cup کو Sup سپ پڑھتے تھے کیونکہ ہمارے استاد نے اپنے استاد سے سپ پڑھ رکھا تھا۔
ہم نے وہ طعنے سن سن کر قسم کھائی تھی کہ اپنے بچوں کو کم از کم اس طعنے کے ساتھ زندگی نہیں گزارنے دیں گے چاہے جتنی محنت کرنی پڑے اور اچھے سکولز کی فیسیں دینی پڑیں۔ آج وہ بچے فر فر انگریزی بولتے ہیں اور تقدیر کی ستم ظریفی دیکھو۔۔ ہمارے بچے بھی اب ہماری انگریزی کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔
اب ہم دونوں دوست منہ بنائے، خود پر زبردستی کی افسردگی طاری کیے اور خود کو دنیا کے سب سے بڑے مظلوم باپ اور اولاد کو ظالم سمجھ کر رات گئے اپنا خود ساختہ غم غلط کرنے کافی بینز کیفے پر کافی پینے آن بیٹھے ہیں۔