کبھی کبھار پنڈی آنا ہوتا ہے وہ بھی رات گئے۔ آج رات بھی اسلام آباد چلے اور جا پہنچے بنی بازار جہاں ایک ریسٹورنٹ میں اچھا کھانا ملتا ہے۔ میری اچھے کھانے کی تعریف میں یہ بھی شامل ہے کہ رات کو سوتے وقت آپ کے سینے میں جلن نہ ہو۔ مطلب مصالحے/آئل مناسب ہے۔
خیر جنید مہار صاحب کی مرضی کے برعکس گاڑی دور پارک کی کہ ایک تو پندرہ بیس منٹ پہلے واک ہوجائے گی اور واپسی پر کھانے کے بعد بھی واک ہو جائے گی۔ کھانے کے بعد پندرہ بیس منٹ واک بہت ضروری ہے۔
خیر راستے میں ایک ریڑھی پر مجھے خوبصورت سے چائے کے مگ نظر آئے۔ میں رک گیا، ریٹ پوچھا تو حیرانی ہوئی اتنے سستے۔
سو روپے کا ایک۔ اس حیرانی میں، میں نے پانچ سو روپے نکال کر نوجوان لڑکے کو دیے کہ بیٹا یہ پانچ پیک کرکے رکھ لو۔ واپسی پر اٹھا لوں گا۔ اب کون اٹھا کر چلتا رہے۔
پوچھا کب تک یہاں کھڑے ہو؟ اس نے کہا وہ بارہ بجے تک ادھر ہے۔ مطلب ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔
میں اکثر راستے میں چلتے فروٹ بھی خرید لیتا ہوں پھر خیال آتا ہے یہ کیا کر بیٹھا ہوں کہ اب فروٹ اٹھا کر چلتے رہو۔ صفدر بھائی یاد آئے جب برسوں پہلے لندن میں ٹریفلگر اسکوائر کے واٹر اسٹون سے بکس خرید کر دو بیگز اٹھائے ہم وہاں سے بکنگم پیلس، ہائیڈ پارک، ماربل آرچ، ایجوائے روڈ سے ہوتے کوئنز پارک تک پیدل چلے جو دو گھنٹے کا سفر تھا۔ بارش الگ ہورہی تھی اور راستے میں الٹا ایجوے روڈ سے بڑا سا تربوز بھی خرید لیا۔۔ ہم ڈیرھ شیانڑے پورا راستہ لنگڑاتے رکتے چلتے ہنستے بارش میں خود پر تبرہ پڑھتے گئے تھے کہ کتابوں کا وزن کم تھا کہ اوپر سے دس کلو کا تربوز خرید لیا۔
خیر کھانا کھا کر لوٹے تو سوا گیارہ بج رہے تھے۔ یاد آیا راستے سے پانچ کپ اٹھانے ہیں۔ وہاں پہنچا تو وہاں ایک اور نوجوان کھڑا تھا۔ اس سے پوچھا تو بولا میرا بھائی تھا۔ وہ کہیں چلا گیا ہے۔ مجھے تو کپ کا بتا کر نہیں گیا۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں فون کرکے پوچھ لو۔
کہنے لگا اس کے پاس فون نہیں ہے۔
میں مسکرا پڑا۔
میں نے اس کی ریڑھی پر موجود پیالیوں کی ویڈیو بنائی کہ آپ کے ساتھ شئیر کروں کہ کتنی سستی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ بتانے لگ وہ گجرات سے لاتے ہیں۔ نوے روپے کا ایک مگ یا پیالی ملتی ہے۔ سو روپے کی بیچ کر دس روپے بچاتے ہیں۔
بہرحال آپ پوچھیں گے پھر ان پیالیوں کا مسئلہ میں نے کیسے حل کیا؟
مجھے پیسہ انسانوں، کتابوں یا کافی چائے مگ کے مقابلے میں کبھی اہم نہیں لگا۔ مجھے وہ رنگ برنگا مگ پسند آیا تو پانچ لے لیے۔ وہی پانچ جن کے پیسے میں ایک گھنٹہ پہلے دے گیا تھا اور اس نوجوان سے ہنس کر پوچھا تھا میرا چہرہ یاد رہے گا۔ اس نوجوان نے بڑے اعتماد سے کہا تھا بالکل سر یاد رہے گا۔ آپ بے فکر ہو کر واپس آئیں۔
اب مجھے لگا وہ ریڑھی والا نوجوان وہ تو نہیں ہے جسے اپنی شکل دکھا کر گیا تھا۔ اس کا بھائی بھی یقیناََ میری بات پر اعتماد نہیں کرے گا۔ میرا پھر پتہ نہیں کب بنی چوک پنڈی کا چکر لگے اور مگ کا یہ ڈیزائن نہ ملے۔
میں نے ایک اور پانچ سو نکالا اور اس بھائی کو کہا مجھے یہ پانچ پیک کر دیں۔ یوں ان پانچ مگوں کی دوبارہ ادائیگی کی۔
وہ کہنے لگا ہم روز ادھر ہوتے ہیں آپ چکر لگا لینا۔ بھائی ادھر ہوگا۔ میں نے کہا اب میں کہاں سے دو ہزار کا پڑول اسلام آباد سے خرچ کرکے یہاں پانچ سو کے کپ اٹھانے آئوں گا۔
وہ بولا میرا بھائی اسے بتا کر نہیں گیا۔ میں مسکرا پڑا اور بٹوہ نکال کر پانچ سو کا نوٹ دے دیا۔
کیا فرق پڑتا ہے۔ شاید اس نوجوان کو پانچ سو روپے سے فرق پڑتا ہوگا اس لیے اس نے میری بات پر اعتبار نہیں کیا۔۔ اب یہ پتہ نہیں جب بھائی لوٹا ہوگا تو اس چھوٹے بھائی نے اسے کیا بتایا ہوگا جس نے مجھے پورے یقین سے کہا تھاوہ میرا چہرہ یاد رکھے گا۔
انسانوں کو شک کا فائدہ دینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے وہ جاتے وقت بھائی کو بتانا بھول گیا ہو یا بھی ہو سکتا ہے۔۔ اس سے آگے میں نے نہیں سوچا۔
جہاں تیس روپے پر چار انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں وہاں پورے پانچ سو پر بنی چوک کے بھرے بازار میں بحث کرنا یا اس پر اڑ جانے میں بھلاکون سی عقلمندی ہوتی۔۔ وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں سب کو موبائل فون نکال کر لڑتے جھگڑتے انسانوں کے جینے مرنے سے زیادہ ویڈیو بناکر ٹک ٹاک پر ویوز لینے کی زیادہ جلدی ہوتی ہے۔