Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Rauf Klasra/
  3. Swat Ka Larka Aur Rawalpindi Ka Dhaba

Swat Ka Larka Aur Rawalpindi Ka Dhaba

اسلام آباد اور پنڈی میں گاڑیوں کا ہجوم اور کئی کئی گھنٹے تک ٹریفک جام اب اسلام آباد کی پہچان بن چکے ہیں۔ کل رات گئے آوارہ گردی کا موڈ بنا تو پنڈی میں سید پور روڈ پر گاڑی دور پارک کی اور پرانے پنڈی کی پرانی سڑکوں پر خاصی دیر تک پیدل چلتے گئے اور چلتے ہی گئے۔

کچھ گلیوں کا علم تھا اور کچھ کا نہیں اور اس میں اپنا ہی مزہ ہے۔۔ رات کو نسبتا سکون ہوتا ہے۔ اگرچہ پھل فروٹ ریڑھیوں، کڑائی، پزے، فلودے، چائے کے ڈھابے ڈھلتی رات کے ساتھ جوان ہوتے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں گاہک کہاں سے آتے ہیں لیکن آتے ہیں کہ ان کا کاروبار چل رہا ہے شاید ہمارے جیسے آوارہ گرد کبھی کبھار نکل آتے ہیں لیکن یہ طے ہے رات ادھر نہیں سوتی۔۔

خیر خاصی دیر چلنے کے بعد ڈھابہ نظر آیا جہاں ایک دفعہ پہلے بھی رات گئے چائے پی تھی اور اچھی تھی۔ وہیں بیٹھ گئے تو ایک اٹھارہ بیس سال کا لڑکا آیا۔ اسے چائے کا کہا۔ وہ نوجوان لڑکا خوشگوار طبیعت کا تھا۔ رات گئے بھی اس کی انرجی لیول سو فیصد لگی، کوئی چہرے پر اکتاہٹ یا تھکاوٹ نہ تھی اور ایسے نوجوان مجھے اچھے لگتے ہیں۔

مہار صاحب حسب عادت اسے چائے بنانے کی ترکیب کافی دیر تک سمجھاتے رہے اور وہ ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔

برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ مہار صاحب کا پرانا شوق ہے کہ وہ ہر چائے ڈھابے پر پہلے چائے والےکو بلا کر یا خود اس کے پاس جا کر خاصی محنت سے اسے چائے بنانا سکھاتے ہیں۔ وہ بھی یوں اداکاری کرتا ہے کہ اس نے سب کچھ سیکھ کیا۔ اگرچہ میں نے قبلہ کو کبھی چائے بناتے نہیں دیکھا لیکن دوسروں کو چائے سمجھانے میں وہ بہت ماہر ہیں اور اس کام میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے گھر بھی آئیں گے تو بھی مجاہد کو چائے کی ترکیب سے ہر دفعہ ضرور بریف کریں گے۔

ایک دن لالہ عشرت نیازی اور مہار صاحب میرے ہاں گھر بیٹھے تھے۔ گھر پر کوئی نہ تھا۔ مجاہد بھی نہ تھا۔ میں نے کہا میں خود چائے بنا کر لاتا ہوں۔ مہار صاحب کے چہرے پر شدید ناگواری ابھری لیکن سمجھداری نے ان پر فوراََ غلبہ پایا اور پھر یہ سوچ کر خاموش رہے کہ چائے نہ ہونے سے گندی مندی چائے ہی بھلی۔

چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لا کر شک بھری نظروں سے مجھے کہنے لگے بنا لیں گے؟

میں نے شرما کر کہا سر کوشش کرتے ہیں۔

مجھے ترکیب بتانے لگے تو میں نے کہا قبلہ آپ کی ترکیب زبانی یاد ہے۔ آج میرے ہاتھوں کی پکی چائے زہر سمجھ کر ہی سہی پی لیں کہ آپ کے پاس اور آپشن ہی کیا ہے۔۔

شاید میری ترکیب جو کبھی 1996 میں جدوجہد کے دنوں میں لاہور کوٹھا پنڈ کے فلیٹ میں اپنے پیارے شاہد مصطفے سے سیکھی تھی وہ آپ سے بہتر نکلے؟

چائے بنا کر عشرت نیازی اور قبلہ کو پیش کی۔ کبھی وہ دونوں چائے کی چسکی لے کر چائے کو دیکھیں اور کبھی مجھے۔۔ دونوں کا کہنا تھا ایسی چائے زندگی میں کبھی نہیں پی۔۔

مہار صاحب جب گھر آتے ہیں فرمائش کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں جس دن مجاہد نہیں ہوگا اس دن۔۔ ورنہ آپ کی ترکیب سے تو آج تک کام کی چائے نہیں بنی۔

خیر اس نوجوان کو جب قبلہ جنید آدھا گھنٹہ لگ کر سمجھا چکے اور وہ نوجوان ہر بات کی ہاں میں ہاں ملاتا چلا گیا تو مطمئن ہو کر سگریٹ سلگا کر انتظار میں بیٹھ گئے۔۔ اب کیونکہ موصوف کی تیکنک پر چائے بنتی ہے لہذا اچھی بنے تو ان کا اپنا کریڈٹ ہوتا ہے اور اگر خراب بنے تو صلواتیں چائے بنانے والے کے حصے میں آتی ہیں۔

خیر میں نے اس نوجوان لڑکے سے پوچھا آپ کا کیا نام ہے؟ وہ بولا شاہ حسین۔

کہاں سے ہو؟

بولا سوات سے ہوں۔

خیر اس نوجوان نے جس طرح خدمت کی تو میں نے چائے کا بل دے کر اسے اچھی مناسب ٹپ دی۔

اس نے ٹپ لینے سے انکار کیا۔ میں نے دو تین دفعہ کہا بیٹا رکھ لو۔ خیر شرما کر اس نے پیسے لیے۔۔

مجھے کچھ حیرانی ہوئی کہ ایسا منظر پہلے نہ دیکھا تھا کہ کوئی ٹپ پر شرما کر انکار کر دے۔

قبلہ اور میں ڈھابے سے نکلے۔ دو تین کلومیٹر دور پارک گاڑی کی طرف جاتے ہوئے میں نے کہا یہ نوجوان لڑکا ابھی سوات کے دیہات سے نیا نیا آیا ہے جہاں شاید ہوٹلز پر ٹپ دینے کا رواج نہیں۔ مجھے یہ خاندانی لڑکا لگا ہے۔۔ جو اپنی عزت نفس کے ساتھ سوات سے یہاں مزدوری کرنے آیا ہے۔۔ یا پھر ہم دیہات کے لوگ ابھی بھی اپنے اندر یہ روایات شاید لے کر زندہ ہیں کہ جب میں ڈھابے سے تنخواہ لے رہا ہوں اور چائے کا بل بھی لے لیا ہے تو کوئی اجنبی مجھے مفت میں کیوں بقیہ پیسے دے رہا ہے؟

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran