کچھ عرصہ پہلے کسی دوست سے بات ہورہی تھی۔ ایسے ہی ذہن میں آیا کہ اگر دوسری زندگی ملتی اور آپشن دیا جاتا کہ پوری زندگی صرف ایک دوست ملے گا تو کس کو پچھلی زندگی میں سے پک کریں گے؟
کافی نام ذہن سے گزرے، پرائمری سکول سے ہائی سے لیہ کالج ہوسٹل سے ملتان یونیورسٹی سے ملتان، اسلام آباد لاتعداد شاندار دوست بنائے۔۔ سب خوبصورت نام اور چہرے ابھرے لیکن ایک نام ذہن سے چپک کر رہ گیا اور وہ نام تھا ڈاکٹر ظفر الطاف کا۔
ایک ایسا خوبصورت دل، دماغ اور انسانیت بھرا دوست جس کی دوستی میں اگلا جنم گزارا جاسکتا تھا۔ ایک فیاض انسان۔
وہ بھی روایتی Leo تھے۔ ان کے ہاں بلیک اینڈ وائٹ نہ تھا۔ یا آپ کی دوست ہیں یا نہیں ہیں۔ ان سے زیادہ لوگوں پر احسانات کرتے شاید ہی کوئی اور بندہ دیکھا ہو۔ جتنا ایک بیوروکریٹ ہو کر وہ لوگوں کے کام آئے میں نے ایسا بیوروکریٹ پھر نہ دیکھا اور نہ کوئی ایسا دوست بن سکا۔ ایک بہادر اور سخی انسان۔
ایک واقعہ ایسا تھا جس نے میری سوچ بدلی۔ وہ فیڈرل سیکرٹری تھے۔ ان کے دفتر بیٹھے تھے۔ ان کے بڑے بھائی جاوید الطاف بھی موجود تھے۔ ان کے سامنے فائل لائی گئی۔ پوچھا کیا ہے؟ بتایا گیا یہ فلاں بندے کی نوکری سے برطرفی کی فائل ہے۔ یہ وہ پی اے ار سی کا افسر ہے جس نے آپ کے خلاف احتساب سیل میں مقدمات بنوائے تھے۔ اس کے کچھ اپنے کیسز پکڑے گئے ہیں۔ یہ انکوائری کے بعد اس کی برطرفی کی فائل ہے۔ آپ کی دستخط سے برطرفی ہوگی اور نوٹفیکشن جاری ہو جائے گا۔ آپ نے اس بندے کی وجہ سے بہت مشکلیں اور تکلفییں دیکھی ہیں۔
چہرے پر غصہ ابھرا اور پوچھا میں نے کب کہا تھا آپ اس کے خلاف انکوائری کریں؟ آپ اس بندے کو کتنا جانتے ہیں؟
وہ افسر جو فائل لایا تھا حیران ہوا اور بولا زیادہ نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا میں اسے جانتا ہوں۔ جب میرے اوپر کیسز بنے تو پورا چیک کرایا تھا۔ اس کا ایک بیٹا کالج پڑھتا ہے، بیٹی نویں جماعت میں ہے، یہ سرکاری گھر میں رہتا ہے۔ آج اسے برطرف کر دوں تو دونوں بچے رل جائیں گے، ان کی تعلیم رک جائے گی، گھر چھن جائے گا اور پورا خاندان سڑک پر آجائے گا۔ باپ کی میری خلاف کی گئی زیادتی کا بدلہ ان دو بچوں سے نہیں لوں گا۔
افسر نے پھر کوئی جواز دینے کی کوشش کی تو جاوید الطاف بول اٹھے کہ ظفر ٹھیک کہہ رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے فائل اس افسر کو واپس کی اور پتہ نہیں پھر کیا خیال آیا اور واپس لے لی اور کہا تمہارا کیا اعتبار پھر کوئی اس کے خلاف کاروائی شروع کر دو۔ فائل وہیں اپنے پاس رکھ کر افسر کے جانے بعد پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دی۔
دس سال پہلے 2015 میں وہ بس بیٹھے بٹھائے چل دیے۔
آج ڈاکٹر صاحب کی 82 سالگرہ ہے۔ یکم اگست کو آگرہ میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔
سالگرہ مبارک سر۔
I miss you. We all miss you.