آزادی کا لفظ کس قدر پہلو دار ہے۔ مخملیں، دل نشیں اور کہیں کہیں حزیں۔ یہ لفظ جب زبان سے نکلتا ہے تو ساتھ میں پرانی مٹی کی خوشبو لے آتا ہے۔ جیسے کسی صندوقچے میں بند خط۔ جس پر وقت کی مہریں لگی ہوں۔ ہر سال یہ لفظ اگست کے مہینے میں در و دیوار پر لپک جاتا ہے۔ کہیں پٹاخے، کہیں دھماکے، کہیں ناکے اور کہیں خاکے۔ جن میں کبھی رنگ بھرے جاتے ہیں اور کبھی خاک اُڑائی جاتی ہے۔ جیسے خوشی اور تشویش ایک ہی دھاگے سے بندھے ہوں۔
صرف یہ دن نہیں بلکہ آزادی کے حوالے سے ہر لمحہ خوشی کا ہے۔ مگر ہمارے معاشرتی رویے اس خوشی کو کسی شوگر کوٹڈ دوا کی طرح بنا دیتے ہیں۔ اوپر سے میٹھا، اندر سے کڑوا۔ گلی کے نکڑ پر بیٹھا مزدور آج بھی روٹی کا حساب لگاتا ہے اور اس کے کانوں میں آزادی کے نعرے محض شور بن کر گونجتے ہیں۔ وہ شور جو شہر کی بلندیوں پر نصب لاؤڈ اسپیکروں سے نکلتا ہے اور نیچے زمین پر تھکے ہوئے لوگوں کے خوابوں کو توڑ دیتا ہے۔
ہم نے آزادی کو غباروں سے باندھ دیا ہے، جو تھوڑی دیر آسمان پر ناچنے کے بعد کسی بجلی کے تار سے الجھ کر پھٹ جاتے ہیں۔ ہم نے آزادی کو رنگین کپڑوں کی سیل میں رکھ دیا ہے۔ جہاں قیمت کا ٹیگ اس کے معنی سے بڑا ہو جاتا ہے۔ ہم نے آزادی کو ہارن بجاتی گاڑیوں، سیلفیوں اور لائٹوں کی جھالر میں لپیٹ دیا ہے۔ مگر اس کے پسِ پردہ سوال۔ وہ سوال جو ہمارے بڑوں نے قربانی کے وقت پوچھے تھے۔ ہم نے الماری کے سب سے نیچے والے خانے میں بند کر دیے ہیں۔
یومِ آزادی کے دن ہم ہرا کپڑا اوڑھ کر سبز ہو جاتے ہیں۔ مگر اگلے دن معمولاتِ زندگی میں ہم پھر وہی خاکستری چہرے، وہی مایوس نگاہیں لے کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ ہم نے آزادی کو کاغذی جھنڈوں میں لپیٹ دیا ہے۔ جیسے معنی کو رنگین کاغذ میں لپیٹ کر بچوں کو دے دیا جائے اور وہ معنی کی بجائے کاغذ کے رنگ پر خوش ہو جائیں۔ ہم نے اسے تصویروں کے فریم میں قید اور ٹک ٹک کے رنگ میں آزاد کر دیا ہے۔ کسی کو تو خوش نما میک آپ میسر ہے اور کچھ گوبرکا لیپ لگا کر میدان میں اتر چکے ہیں اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ ٹیکس پر ٹیکس کے عوض سہولیات اور آسانیوں کا تذکرہ بھی تحقیق کا متقاضی ہے۔
محکموں کے جوڑ توڑ میں کرپٹ پرائیویٹ اکیڈمی مافیا اتنا منہ زور ہو چکا ہے کہ بیوروکریسی کو ہدایات جاری کررہا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ تاریخ صرف دیواروں پر لٹکی ہوئی تصویروں کا نام رہ جاتا ہے۔ برگد کے درخت کی تصویر وہی ہے۔ بے بسی کی کہانی میں کئی نئے موڑ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم آزادی کو صرف ایک دن کا میلہ بنانے کے بجائے اسے زندگی کے ہر دن کی سانس میں محسوس کریں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم پٹاخے جلانے کے بجائے سوچ و فکر کی مثبت اڑان بھریں اور تعمیری قدم اٹھائیں۔
ہوا میں لپکتے رنگ جیسے امید کے پرچم ہوں۔ آزادی کے اصل معانی یہ ہی تو ہیں۔ دوسرے کے حصے کی دھوپ کو نہ چرانا۔ کسی کے خواب پر اینٹ نہ رکھ دینا۔ کسی کے آسمان کو دھوئیں سے نہ بھر دینا۔ کسی پر قتل کے فتوی نہ لگانا اور اگر ہم نے یہ سیکھ لیا تو شاید اگست کے یہ رنگ محض کپڑے اور جھنڈے تک محدود نہ رہیں۔ بلکہ دلوں میں اُتر کر سچ مچ کے سبز ہو جائیں۔ شہر کے چوک میں ہری جھنڈیوں کا سمندر ہو لیکن اس سمندر کے کنارے کھڑے لوگوں کی جیب میں فاقے کے پرانے کاغذ نہ ہوں۔ آزادی کے نعرے سب کے کانوں میں گونج کر تھکن سمیٹ لیں۔
زرد چہرے امیدیں سنبھالے ہوئے
اپنے صدمات کو بھی اجالے ہوئے
حادثوں پہ رکیں اپنی جاں وار دیں
اور مائیں بھی بیٹے رضاکار دیں
اپنے خوابوں کو وردی میں ڈھالے ہوئے
اپنے پرچم کی حرمت بڑھاتے ہوئے
اس زمیں پر لہو جو بہایا گیا
ان شہیدوں کا سر سے نہ سایا گیا
ان کا زخمی بدن ان کی روشن جبیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
خوش نما خواب خود اپنی تعبیر ہیں
اک سفر پر سجی اپنی تعمیر ہے
رقص ہوتا رہے گا روایات کا
چاک دامن نہ ہوگا کرامات کا
دل سمجھ کر رہے گا یہ جادوگری
یہ صدائیں ہیں یا پھر ہے نوحہ گری
ہم جو وارے گئے ہم ستارہ نشیں
سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں
ہم نے آزادی کے جوہر کو رنگین روشنیوں اور جشنوں میں دفن کر دیا ہے۔ جب کہ اس کا اصل مفہوم ہے انسانی وقار، مساوات اور انصاف۔
یہ آزادی ذہنی، معاشی اور ثقافتی خوشحالی کا حق ہے۔ آزادی صرف ان ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے لیے نہیں، جو ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ معاشی انصاف کی کمی شدید سے شدید ہوتی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازم سے مزدور، کسان اور ہر فرد اپنی محنت کے عوض حقیر سے حق کی تلاش میں ہے۔
78 سالہ پاکستان اس بزرگوار کی طرح ہے۔ جو لاٹھی ٹیک ٹیک کر ہی آگے بڑھتا ہے۔ جسے کندھوں کی ضرورت ہے۔ بڑھاپے کی طرف گامزن یہ بوڑھا ملک نئے پودے لگانے کی امید رکھتا ہے۔ یہ پودے آج کی نسل ہیں۔ جنہیں مستقبل کے وسوسے بڑھنے نہیں دے رہے۔ یہ پودے سمگل ہو رہے ہیں یا مال کی عدم توجہی نے انھیں بنجر کر دیا ہے۔ یوم آزادی مناتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے کہ اس بوڑھے ملک کی نئی نسل اور جوان خون ہی نگہداشت کر سکتا ہے۔ جس کی امید قائم ہے اور حوصلے جوان۔
رہے نام اللہ کا