دور سے ایک آدمی بھاگتا آ رہا تھا۔ گاؤں کے قریب پہنچ کر اس نے جیب سے ٹوپی نکالی تو چبوترے پر بیٹھا "پیر فرتوت" زور سے ہنسنے لگا۔ اس نے اپنے مرید خاص سے کہا کہ یہ آدمی منافقت کے سائے میں جوان ہوا ہے۔ اسے اپنی ٹیم میں شامل کر لو۔ پیر فرتوت کے مریدوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اسے ہوشیاری کہیے یا لوگوں کی حماقت۔ نیا مرید چند دنوں میں ہی "کرامات والا بابا" مشہور ہوگیا۔ پیر فرتوت نے بتایا کہ جاہل قوم کی جہالت سے آپ اپنے ماتھے کی کالک کو کے محراب دکھا سکتے ہیں۔ اس پیر فرتوت نے بتایا کہ وہ زندگی بھر دو کاموں کی وجہ سے کامیاب رہا ہے۔
ایک لوگوں کے دلوں پر خوف طاری کرنا۔ دوسرا لوگوں کو خوشامد کے ریپر میں لپیٹ کر خواب اور تسلی بانٹنا۔ لوگ جو پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کے دل پر خوف طاری کرنا کچھ مشکل نہیں۔ ایسی صورت حال میں رسی کو سانپ دکھانا کرتب معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ذہنوں پر طاری صدیوں کا خوف اس رسی کے بل خود وضع کر لیتا ہے اور یہ خوف نسل در نسل کہانیوں میں لپیٹ کر منتقل کرتا رہتا ہے۔ پیر فرتوت نے بتایا کہ لوگوں میں پھیلا یہ اندھا خوف ہر دور میں جوان رہتا ہے۔ اینٹی ایجنگ دوائیاں بنانے والے کیمسٹ اس خوف کے سہارے ہی کاروبار کرتے آ رہے ہیں۔ خوف کا یہ آب حیات "سندھ طاس" تو کیا ہر معاہدہ سے بالاتر ہے۔
پیر فرتوت نے بتایا کہ اس کی ساری زندگی اس خوف کے انجکشن تیار کرتے گزری ہے۔ اسی لیے اس کے مریدین کبھی بیعت سے واپس نہیں ہو سکتے۔ ان کو سچ بھی جھوٹ لگے گا۔ ان پر ہر وقت یہ خوف طاری رہتا ہے کہ ان کو روٹی تک نہیں ملے گی۔ پیر فرتوت کی دوسری تکنیک امید بھری تسلی نما خوشامد ہے جس سے بڑے بڑے جن قابو کیے جا سکتے ہیں۔ پیر فرتوت نے کئی ایسے قصے سنائے۔ جن میں بے شمار بھنبھناتی مکھیوں کو قابو کرنے کی فن کاری کا ذکر تھا۔
ہم سب نے مکڑی اور مکھی کی کہانی سن رکھی ہے لیکن ہمیں جال سے بہت محبت ہے۔ ہماری عقل مندی یہ سمجھتی ہے کہ جس میں ہم پھنس رہے ہیں، یہ اصلی جال نہیں ہے۔ پیر فرتوت کے بڑے زندگی بھر ایسے جال تیار کرتے رہے ہیں۔ اس نے ہمیں کئی ایسے جال بتائے جو دکھائی نہیں دیتے لیکن اس میں پھنسے شکار خوش اور پر امید نظر آرہے تھے۔ وہ ایسے جال سے آزادی کے خواہاں تھے جو ان پر طاری بھی نہیں تھا۔ اس نے دکھایا کہ لوگ چل پھر رہے ہیں لیکن ان کے دماغ بندھے ہوئے ہیں۔ پیر فرتوت نے ایسے کئی دماغ بھی دکھائے جو لوگوں نے پیر فرتوت اور اس کے خاندان والوں کے پاس گروی رکھوائے تھے۔
یہ سب دماغ ملفوف تھے اور انھیں چھوٹے چھوٹے خانوں میں رکھا گیا تھا اور یہ انتظام بھی کیا گیا تھا کہ ان میں وہ تمام خلیے جامد رہیں، جن کا تعلق سوچ و فکر سے ہو۔ ان ملفوف دماغوں کو آکسیجن کی فراہمی روک دی گئی تھی حالانکہ دماغ کو پٹھوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لاہور کی اکثر یونیورسٹیز میں بھی ایسے دماغوں کو قابو رکھنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں جو سوچ و فکر کی بات کرتے اور اس پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو منافق بھی بلا کے
(کومل جوئیہ)
پیر فرتوت کے کچھ رشتہ دار منافقت سے لپیٹے ایسے کئی جال لیے اعلی تعلیمی اداروں کی ساکھ خراب کرنے پر مامور کیے گئے ہیں۔ وہ استاد جن کے دماغ تک حجاب زدہ ہیں۔ بچوں کو ان کے ہنسنے سے لے کر چلنے پھرنے میں ہراس کرتے ہیں اور کبھی امتحان نہ دینے اور کبھی فیل کرنے کی دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔ خدائی خدمت گار شاہ کے وفادار ہونے کا ڈھونگ کرتے ہئں۔ اساتذہ بچوں کو اپنے گزرے زمانے کی جھلکیاں دکھا کر وہیں قید رکھنے پر مصر ہیں اور خود جدید دور کی سہولیات چھوڑنے پر تیار نہیں۔ خواہ ہجرت کا دکھ سہنا پڑے۔ فی زمانا یونیورسٹیاں ان مجاہدین کا گڑھ بن چکی ہیں جہاں استاد اپنے طلبہ کو اور طالب علم اپنے ساتھی ہم جماعتوں کو اپنے وضع کردہ اسلامی نظام قبول کروانے پر مصر ہیں۔
ڈر ہے کہ کہیں یونیورسٹیز میں کوئی زمانہ قدیم کا استاد نہ آ جائے اور پتوں سے ستر پوشی، پتھروں سے آگ اور مینگنیوں سے کیلنڈر بنانے کا حکم صادر نہ کر دیا جائے۔ گاڑیوں کا رخ پہلے ہی اردو بازار کے تنگ راستے پر موڑ دیا گیا ہے۔ پیر فرتوت نے بتایا کہ ہر حکم نامہ کے پس پردہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کی خواہش موجود ہے۔ ایسے منافقانہ حجابات سے معاشرہ میں منافقت کو پھیلانے میں مدد ملے گی۔
پیر حاضر کی جادوگری دیکھ کر
بات بڑھنے نہ پائی تھی میقات سے
(سعدیہ بشیر)
دریا اور وقت کا سفر ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے۔ اہمیت صرف مہذب ستر پوشی کی ہے۔ جینز، کرتے یا شرٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بچے ایک جینز کے ساتھ مختلف شرٹس پہن کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ لباس صاف ستھرا، مہذب اور ستر پوشی کے تقاضے پورا کرتا ہو، یہ کافی ہے۔ ضروری ہے کہ یونیورسٹیز میں کوئی بہتری کی گنجائش، نکالی جائے۔ اٹھک بیٹھک کی مشقیں کروا کر اپنی قابلیت نہ دکھائی جائے۔ تین سال اسی اٹھا پھٹک میں گزار کر قابلیت کی سند لے کر کہیں اور مامور کر دیے جائیں گے۔ سب پر ایک پینٹ کرنا وی سی صاحبان کا کام نہیں۔ ایک یونیورسٹی میں بیمار ذدہ دماغوں کی ترویج کی خواہش یوں کارفرما ہے کہ جن کے دماغ ہیں انھیں دھوپ میں پیدل چلنے کی افادیت کا درس دیا جا رہا ہے۔
بات بچوں سے اساتذہ کی عملی تربیت پر آن پہنچی ہے۔ میں گیٹ سے گاڑی لانے پر ممانعت۔ حکم ہے کہ اردو بازار کے گیٹ یا مین پارکنگ میں لگائی جائے۔ حالانکہ یونیورسٹی میں تین چار جگہ پارکنگ کی سہولت موجود ہے۔ یعنی وی سی صاحبان کا ویژن پی ٹی کی مشقیں کروانے تک محدود ہے۔ شاید یہ بھی زندگی سے جنگ کا کوئی ہتھیار ہے۔ انھیں چاہیے کہ گدھا گاڑیوں اور چنگ جی رکشوں کو مین گیٹ سے گزرنے کی اجازت دیں تا کہ نیا ویژن تشکیل پا سکے۔ کچھ افسران فیصلہ سازی کے نام پر صرف کرسیاں الاٹ کرتے ہیں۔ کل ملا کر یہی ان کی قابلیت ہے۔ سوچ میں ہیں کہ پیر فرتوت کے پاس گروی رکھوائے گئے دماغوں میں جانے کس کس کے دماغ کس قیمت پر گروی پڑے ہیں۔