Saturday, 06 December 2025
  1. Home/
  2. Saadia Bashir/
  3. Nigah e Aas Banam Arbab e Ikhtiyar

Nigah e Aas Banam Arbab e Ikhtiyar

رحمت، محبت، برکت اور پھر رحمت ہی رحمت۔ ماہ ربیع الاول ہو اور در رحمت نہ کھلے۔ یہ کہاں ممکن ہے۔ در پھیلائے، امید کا دامن پکڑے سرکاری ملازمین بھی حرف دعا اور عاجزی سے لبریز منتظر نگاہوں سے چیف جسٹس آف پاکستان، فیلڈ مارشل محترم جنرل عاصم منیر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی سرد مہری اور ظلم کی حدود سے شفاف راستہ پانے کے لیے۔ کیونکہ راجا انصاف کرتا ہے اور پیادہ صرف بھاگتا ہے۔ یہاں بھی ایک دن یعنی 24 گھنٹے میں وقت میں اتنی تبدیلی اس سرعت سے سرایت ہوئی۔ جہاں گروہ سازی، طبقات اور سٹیٹس کی آنچ نے اپنی لو کو دو دھاری تلوار بنا دیا۔ اسے یوں بھڑکایا کہ ایک دن آگے نکلنے والے سرکاری ملازمین پر گویا باد سموم نے حملہ کر دیا۔

2 دسمبر 2024 کا نوٹیفکیشن صرف صوبہ پنجاب کے ملازمین پر ہی نافذ کیا گیا یا شاید صوبہ پنجاب کی حکومت نے اپنے زعم سے چور خود ساختہ روایات کی سنگلاخ زنجیر بڑھائی اور یک جنبش قلم، امید و خواب قلم کرنا مقصود ٹھہرا۔ وہ زنجیر جسے ہلانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ انصاف کرنے کی طاقت نہ ہو تو مظلوموں کو بلیک میلر کہہ کر اسی طور جان چھڑا لی جاتی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے 02 دسمبر 2024 کو جاری کیے گئے اس نوٹیفکیشن نے ہزاروں سرکاری ملازمین، بالخصوص اساتذہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد مالی طور پر ناقابلِ تلافی محرومی سے دوچار کر دیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق، جو ملازمین 02 دسمبر 2024 کے بعد ریٹائر ہوئے، ان کی گریجویٹی، پنشن، انشورنس اور دیگر واجبات میں جتنی کٹوتیاں کی گئیں۔ ان سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب حکومت سرکاری ملازمین کے خلاف کس قدر متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔

یکم دسمبر 2024 یا اس سے پہلے ریٹائر ہونے والوں کا ملبوس سلامت رہے لیکن ایک دن بعد نوٹیفکیشن کے ذریعہ کلنک کا ٹیکہ لگانے کی مصلحت کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ جس سے سرکاری ملازم اچھوت ٹھہرے۔ ان متنازعہ نکات اور اعداد و شمار کے مطابق گریجویٹی سے لے کر پنشن تک کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ یعنی 40٪ کٹوتی۔ جہاں مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم ہے۔ وہاں ان کی آنکھوں میں مستقل آنسوؤں کا بسیرا کرنے کی سازش رچائی گئی۔ یعنی 02 دسمبر 2024 کے بعد ریٹائر ہونے پر ہر ملازم تقریباً 30-32 لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر تقرر ان شرائط پر ہوا تھا جن میں مکمل گریجویٹی شامل تھی، تو بعد ازاں یکطرفہ کمی کن قانونی بنیادوں پر کی گئی اور تو اور اپنے لیے 150 فی صد تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں ماہانہ 50,000 روپے کمی کا سریع الاثر زہر۔ آپ کے لیے زندگی بھر کا استثنی اور سرکاری ملازم کے لیے کالے پانی کی سزا۔ آخر پنجاب میں ہی یہ قیامت کیوں ڈھائی گئی۔ نشانہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کس لیے۔ دسمبر میں سقوط کی یاد میں ریٹائر ہونے والے ملازمین میں سقوط ساقط کرکے جائز حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بغیر کسی عبوری مہلت یا مشاورت کے۔ یہ دنیا کی واحد اسکیم ہے جہاں پالیسی ہولڈر زندہ رہنے پر سزاوار ہے۔

قانونی، آئینی اور اخلاقی سوالات میں سول سرونٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کیا صرف پنجاب حکومت کے ذمہ ٹھہری ہے۔ سروس کنڈیشنز میں ریٹائرمنٹ کے وقت کے نوٹیفکیشن کے مطابق نہیں، بلکہ تقرری کے وقت کی شرائط کے مطابق متعین ہوتی ہیں۔ کسی بھی نئے ضابطے یا کٹوتی کا اطلاق مستقبل کے ملازمین پر ہو سکتا ہے۔ نہ کہ ان پر جو تیس سال سروس کر چکے ہوں۔ کیا پنجاب حکومت ہر ضابطہ، ہر فیلڈ سے مبرا ہے۔ جو آئینِ پاکستان کی شق 9 (زندگی کا حق) اور شق 25 (برابری کا حق) کی خلاف ورزی پر مصر ہے۔ اگر ایک دن پہلے ریٹائر ہونے والے کو تمام مالی مراعات ملتی ہیں اور دوسرے دن والے سے وہی چھین لی جاتی ہیں۔ تو یہ آئینی مساوات کی ظالمانہ خلاف ورزی قانونی اور آئینی تضادات پر مبنی ہے۔ چونکہ ملازمت کے دوران تقرری کے وقت گریجویٹی، پنشن اور دیگر مراعات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جس کا ریٹائرمنٹ پر کوئی بدل نہیں دیا جا رہا۔ لہذا یکطرفہ کمی کے اصول سول سرونٹ ایکٹ 1974 کے تحت ظلم کی بنیاد بنتے ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے کئی فیصلے (خصوصاً: PLD 2013 SC 195) اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ ملازمت کی شرائط کو ریٹائرمنٹ سے پہلے یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اب صرف ریٹائرمنٹ کا نہیں، ریاستی وعدہ خلافی اور معاشی استحصال کا کیس ہے۔ سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس عائشہ ملک کا فیصلہ کس قدر بہترین اخلاقی عکاسی ہے کہ پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ ریاستی قوانین کے مطابق آئینی حق ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے طے کر لیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین سے غیرت و خودداری کی قیمت پر کشکول تھما کر اس میں صرف اپنی خواہش کے مطابق سکے ڈالے گی۔ سرکاری ملازمین کو غالب سمجھ کر پنشن کے چکر کاٹنے پہ لگا دیا ہے اور وہ بے چارے زنجیر تک ہلانے سے قاصر ہیں۔

ہوا ہوں جب سے پنشن یافتہ یہ حال ہے یارو
نہ کوئی قرض دیتا ہے نہ پنشن بانٹ سکتا ہوں

یہی کیا کم ہے خود مختار ہوں میں جب بھی جی چاہے
تمناؤں کے پر اڑنے سے پہلے کاٹ سکتا ہوں

(غوث خواہ مخواہ حیدر آبادی)

دوسری طرف سرکاری ملازمین کو کروڑوں کا طعنہ دیتے وزیر موصوف خوش حالی کی نئی کھیپ کو لاکھوں کی تنخواہ کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ ستم یہ کہ صوبہ پنجاب کے اساتذہ ڈسپیریٹی الاؤنس سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت جانے کس بات کا بدلہ اساتذہ سے لے رہی ہے۔ تعجب تو آئی ایم ایف پہ بھی ہے جو پاکستان بالخصوص صوبہ پنجاب کے اساتذہ کے خلاف ہے۔ جنہیں اسمبلیوں میں بیٹھے اہل ثروت کی بڑھتی ہوئی تنخواہیں بوجھ نہیں لگتیں۔ اساتذہ تو اس بوڑھے آدمی کی طرح ہو گئے ہیں جو ساری جوانی پردیس کاٹ کر گھر آتا ہے۔ واپسی پر اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی گھر میں کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔

کوئی پنجاب حکومت کو یہ احساس دلائے کہ ریاست چلانے کا کام قصے کہانیاں سنانے یا ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے سے نہیں ہوتا۔ حکمرانی سنجیدگی، تدبر اور دور اندیشی مانگتی ہے۔ ایسے فیصلے جو وقتی داد نہیں، بلکہ تاریخ میں عزت کماتے ہیں اور قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ کسی کالے کو گورے پر فوقیت نہیں۔ لیکن یہ جو آپ نے4 دسمبر والوں کو 2 دسمبر والوں سے آدھا کر دیا؟ ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ اس مبارک مہینہ کی برکت و رحمت کے احترام میں برائے انصاف و مساوات 2 دسمبر 2024 کے نوٹیفکیشن کو معطل یا مستقبل پر موخر کیا جائے۔ اس سے پہلے ریٹائر ہونے والوں کے ساتھ یکسانیت برقرار رہتی ہے۔

مذید براں گریجویٹی، پنشن، لیو ریونیو، انشورنس کی مد میں کٹوتیوں کی مکمل وصولی بحال کی جائے۔ اس فیصلہ سے چند خوشامد پرستوں کی بجائے صوبہ بھر کی عوام کا مستقل بنیادوں پر حکومت پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

رہے نام اللہ کا

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran