Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Saadia Bashir/
  3. Pesh e Khursheed Bar Makash Deewar

Pesh e Khursheed Bar Makash Deewar

ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت اب اس مریض کی سی ہو چکی ہے۔ جسے مرض کا علم تو ہے مگر علاج پر کوئی آمادہ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ استاد اور شاگرد کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ مگر کسی کو یہ احساس نہیں کہ یہ فاصلے دراصل نظامِ تعلیم کے تابوت میں آخری کیل بن رہے ہیں۔

آج کے تعلیمی منظرنامے میں سب سے بڑا المیہ استاد کی اخلاقی، علمی اور پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان ہے۔ استاد کو نہ یہ سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ تدریس روزگار کی عمارت تو ہے لیکن اس کی بنیاد مقدس ذمہ داری ہے۔ چند پریزنٹیشنز، پرانے نوٹس اور درسی سلائیڈز کے سہارے تدریس کا عمل تو چل رہا ہے مگر تعلیم کی روح کہیں گم ہو چکی ہے۔

شیخِ مکتب نہ تو عمارت بن سکا اور نہ رُوحِ انسانی کو صنعت بنا سکا۔ مختلف یونیورسٹیز کے حوالے سے اساتذہ میں اخلاقی انحطاط اور عدمِ برداشت بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ استاد اب طالب علم کے سوال کو تجسس نہیں سمجھتا بلکہ گستاخی مانتا ہے۔ کلاس رومز، گراؤنڈ اور لیکچر ہالز (halls) میں بچوں کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ طنز و تضحیک سے ان کا حوصلہ توڑتا ہے۔ ایسی فضا میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کی لگن کھو جاتی ہے۔ نتیجہ دائرے کا سفر۔

لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایک استاد کے خلاف شکایات کا انبار ہے۔ وہ اپنے طلبہ کے تھیسس پڑھنے کے پیسے لیتا ہے۔ لیکن یونیورسٹی سوئی ہوئی ہے۔ بہت سے شعبہ جات میں اساتذہ شاگردوں سے اہنے نام سے ریسرچ پیپرز لکھوانے کے لیے ہر طرح کی بد سلوکی کرتے ہیں اور اس وجہ سے بہت سے اسکالرز ایم فل، ہی ایچ ڈی سے دست بردار ہوتے ہیں۔ قمر رضا شہزاد کہتے ہیں۔ "یہ کس قدر بدنصیبی ہے کہ بعض اساتذہ نصابی تنقید سے نہیں نکلتے اور طالب علمی کے زمانے میں پڑھی ہوئی متروک ادبی تھیوریوں سے ہی کام چلاتے رہتے ہیں"۔

یہ اعداد و شمار خوف ناک ہیں کہ کتنے ہی طلبہ درمیان میں پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ کچھ اساتذہ کے مکروہ کردار کی وجہ سے طلبہ تھیسس مکمل نہیں کر پاتے۔ لیکن اس پہ بات کرنا بھی ٹیبو ٹھہرا ہے۔ لاہور ہی کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر کی سیٹ کو تعصب کے تحت شامل ہی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ان سیٹوں کی منظوری ہو چکی تھی۔ اس کے لیے طلبہ سے لے کر ایڈمنسٹریشن تک کو بلیک میل کیا گیا اور فزکس کے پروفیسر کی سیٹ نکال دی گئی۔ ضروری ہے کہ یونیورسٹیز کا بھر پور آڈٹ کروایا جائے کہ کتنے شعبہ جات نے کتنے طلبہ کا مستقبل تباہ کیا ہے۔ ان اساتذہ کے خلاف ایف آئی آر کروائی جائے اور انھیں نااہل کیا جائے۔ یعنی آپ کسی کا مستقبل برباد کر دیں اور آپ سے پوچھا بھی نہ جائے۔ سوشل میڈیا پر ہر مسئلے کا حل ہے سوائے ان اساتذہ کے جو طلبہ کا مستقبل تباہ کر دیتے ہیں۔

اگر ہم نے ایسے استاد کی اصلاح نہ کی تو نسل نو کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہماری ٹریننگز میں کبھی یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ استاد کا کام صرف لیکچر دینا نہیں بلکہ کردار بناتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ استاد کے اندر مطالعہ اور تحقیق کا ذوق تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ زیادہ تر اساتذہ نئی کتب اور تحقیقی رجحانات سے لاعلم ہیں۔ وہ نہ بین الاقوامی ریسرچ پڑھتے ہیں، نہ اپنے مضمون کی جدت سے آگاہ رہتے ہیں۔ ایسے میں کلاس روم علم کا مرکز نہیں بلکہ معلومات کی تکرار بن جاتا ہے۔ جو خود سیکھنا چھوڑ دے، وہ دوسروں کو سیکھنے کی تحریک کیسے دے گا۔

مزید یہ کہ استاد کے اندر تعصب اور خود پسندی سرایت کر چکی ہے۔ وہ اپنی رائے کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا۔ طلبہ کی نئی سوچ اسے خطرہ محسوس ہوتی ہے۔ ایسے استاد علم کو زندہ روایت نہیں رہنے دیتے، بلکہ اسے ذاتی انا کی دیواروں میں قید کر دیتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں صورت حال اور بھی سوا ہے۔ ماہرِ نصاب اساتذہ کی کمی نے صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔ ہر مضمون ایک ملغوبہ بن چکا ہے، جس میں نہ تسلسل ہے، نہ واضح مقصد۔ کورس ڈیزائن کرنے والے خود اکثر اس شعبے کے ماہر نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نصاب علم کے بجائے ابہام پیدا کر رہا ہے اور طلبہ کے ذہن الجھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ کس مضمون کے کیا تقاضے ہیں اور ہمیں کیا نتائج حاصل کرنا ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سفارش، اقرباپروری اور سیاست نے بھی میرٹ کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

استاد کی تقرری اکثر سفارش کے تحت ہوتی ہے، قابلیت کے تحت نہیں۔ زیادہ تر ادارے معیار کے بجائے تعداد کے پیچھے ہیں۔ زیادہ داخلے، زیادہ فیسیں، زیادہ رزلٹس۔ مگر کم علمی کی تکرار اور تربیت ناپید۔ امتحان کا نظام سوچ اور فہم کے بجائے رٹا سازی اور نقل پر انحصار کرتا ہے۔ استاد کا کام محض نمبر دینا رہ گیا ہے، شاگرد کا مقصد صرف پاس ہونا۔۔ بہت سے کم فہم" استادوں" کے ساتھ اداروں کی انتظامیہ بھی اکثر ظاہری ڈسپلن کے خول میں پناہ لیتی ہے۔ انہیں طلبہ کے لباس، جوتے، یا بالوں کی فکر تو ہے، مگر سوچ، روّیے اور اخلاقی شعور کی نہیں۔

ڈریس کوڈ کی بات کرتی ہیں تو پھر انہیں دماغی کوڈ کی بھی بات کرنی چاہیے۔ جب ادارے ذہن و کردار کی تعمیر کو نظرانداز کریں، تو تعلیم صرف نمائش بن جاتی ہے، تربیت نہیں۔ طلبہ کے ساتھ استاد کا تعلق بھی سرد ہو چکا ہے۔ ماضی میں استاد رہنما ہوتا تھا، اب وہ صرف ایک دستخط یا گریڈ دینے والا شخص ہے۔ طلبہ اپنی فکری الجھنیں یا ذاتی مسائل شیئر نہیں کر پاتے۔ کیونکہ استاد میں سننے کا حوصلہ باقی نہیں رہا۔ جب رابطہ ٹوٹ جائے تو تعلیم صرف ظاہری رہ جاتی ہے، اندر سے خالی۔ ان تمام خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ استاد خود سیکھنے، برداشت اور خود احتسابی کا عادی نہیں رہا۔ اسے یہ یقین ہوگیا ہے کہ وہ سب جانتا ہے اور یہی یقین تعلیم کا دشمن ہے۔ زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوز جگر ہے مگر استاد سوز دماغ بن چکا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس نظام کو ازسرِ نو تشکیل دیں۔ استاد کو دوبارہ سکھایا جائے کہ تعلیم صرف نصاب نہیں بلکہ کردار سازی ہے۔ تربیت میں اخلاق، صبر، مطالعہ اور جدید تدریسی مہارتیں شامل کی جائیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ استاد خود غیر یقینی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کو نہ مستقل روزگار کا اطمینان ہے۔ نہ ترقی کی کوئی واضح راہ۔ جب استاد کی اپنی بنیاد غیر محفوظ ہوگی تو وہ شاگرد کے لیے یقین، تحریک اور امید کہاں سے لائے؟ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم کا عمل خدمت کے بجائے ایک نوکری بن چکا ہے۔ جہاں مقصد قوم کی تعمیر نہیں، بس سمسٹر مکمل کرنا ہے۔ حل یہ ہی ہے کہ کنٹریکٹ کلچر ختم کیا جائے۔ نصاب سازی ماہرین کے سپرد کی جائے۔ تحقیق اور مطالعے کو لازمی حصہ بنایا جائے اور تدریس کو دوبارہ عزت و مقصد کا پیشہ بنایا جائے۔ کیونکہ جب استاد خود کمزور، متعصب اور غیر مخلص ہو، تو شاگرد صرف کتابیں پڑھتے ہیں، علم نہیں پاتے۔

حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

(خمار بارہ بنکوی)

اور جب علم مر جائے تو قوم کا وجود صرف ایک خالی ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ سانس لیتا ہوا، مگر بے روح۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran