Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Syed Badar Saeed/
  3. Aisi Jail Jahan Qaidi Hunarmand Bante Hain

Aisi Jail Jahan Qaidi Hunarmand Bante Hain

یہ کہاوت زبان زدِ عام ہے کہ جیل جرائم کی دنیا کا وہ سکول ہے جہاں داخل ہونے والے بے گناہ بھی اکثر خطرناک مجرم بن کر باہر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جیل کے اندر قیدیوں کے درمیان ایسا نیٹ ورک قائم ہو جاتا ہے جو بعد ازاں جرائم کی ایک باقاعدہ تنظیم یا گینگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ نئے قیدی پرانے، عادی مجرموں سے ملتے ہیں تو وہ ان کے تجربات اور تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یوں ایک نیا سب گینگ وجود میں آ جاتا ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جیل میں مختلف نوعیت کے جرائم کے ماہرین اکٹھے ہوتے ہیں اور وہیں سے اپنے گروہ کی بنیاد رکھ لیتے ہیں۔

یہ تاثر صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں جیلوں سے متعلق ایسے تصورات عام پائے جاتے ہیں۔ جیل کی دنیا بلاشبہ ایک خوفناک دنیا ہے۔ ایک انسان جب قید کے دروازے کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال قید و بند کی نذر کر دیتا ہے۔ جب وہ رہا ہو کر باہر آتا ہے تو دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔ روزگار کے حصول میں اسے طرح طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی مالک اسے ملازمت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں جیل کاٹنا گویا ایک منفی کریکٹر سرٹیفکیٹ بن جاتا ہے۔

لوگ یہ سوچ کر گریز کرتے ہیں کہ ایک سزا یافتہ شخص کو اپنے ادارے یا کاروبار کا حصہ بنانا خطرے سے خالی نہیں۔ یوں معاشرتی رویے رہائی پانے والے شخص کو دوبارہ معاشرے میں جگہ نہیں لینے دیتے اور بہت سے لوگ اسی دبائو کی وجہ سے دوبارہ جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جیلوں کے حوالے سے سوچ میں ایک مثبت تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ اگلے روز آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر سے ہونے والی نشست میں معلوم ہوا کہ پنجاب میں قید کے تصور کو بدلنے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب قیدیوں کو صرف سزا کاٹنے کے بجائے ان کی اصلاح، تربیت اور بحالی پر توجہ دی جا رہی ہے۔

پاکستان میں طویل عرصے تک جیلوں کا نظام سخت اور فرسودہ سمجھا جاتا رہا، لیکن اب ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ ان کے مطابق صوبے کی 31 جیلوں میں قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے ویڈیو کال کے ذریعے رابطے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ قیدی ہفتے میں 80 منٹ تک اپنے پیاروں سے بات کر سکیں گے جس سے نہ صرف ان کے ذہنی دباؤ میں کمی آئے گی بلکہ خاندانی رشتے بھی مضبوط رہیں گے۔

یہ سہولت قیدیوں کی نفسیاتی صحت اور ان کے معاشرتی بندھن کو برقرار رکھنے میں ایک اہم قدم ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات نے مزید بتایا کہ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں خواتین کے لیے تین نئی جیلیں قائم کی جا رہی ہیں۔ خواتین قیدیوں کے لیے بیوٹیشن کورسز شروع کیے گئے ہیں اور تین ماہ بعد ان کورسز کے کامیاب شرکا کو سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ وہ رہائی کے بعد اس ہنر کو ملازمت یا کاروبار کی صورت میں اپنا سکیں۔

اب تک دس ہزار سے زائد قیدیوں کو مختلف ہنر سکھائے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب کیمپ جیل کے قیدی ووڈ ورک اور ہینڈ میڈ مصنوعات بنا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس تربیتی پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ قیدی اپنے وقت کو محض گزارنے کے بجائے کوئی ایسا ہنر سیکھیں جو رہائی کے بعد ان کے لیے باعزت روزگار کا ذریعہ بن سکے۔ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ اب جیلوں کے سیکیورٹی نظام میں بھی جدید ٹیکنالوجی شامل کی جا رہی ہے۔ ماضی میں قیدیوں کے نام پکارنے کا جو روایتی طریقہ رائج تھا اسے ختم کرکے بائیومیٹرک حاضری کا نظام نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی کے لیے باڈی ایکسرے مشینیں نصب کی جا رہی ہیں جو پورے جسم کو اسکین کرکے کسی بھی چھپی ہوئی چیز کا سراغ لگا سکتی ہیں۔

آئی جی کے مطابق یہ مشینیں سولہ کروڑ روپے مالیت کی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نوعیت کی مشینیں پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر بھی موجود نہیں۔ اب باڈی اور چہرے کے اسکین کے بعد ملاقاتی کو ہاتھ پر جیل کا روایتی ٹھپہ لگوانے کی ضرورت نہیں ہوگی جس سے نہ صرف عملہ بلکہ ملاقاتیوں کو بھی آسانی ملے گی۔ یہ نظام جیل کی سیکیورٹی کو مضبوط اور شفاف بنانے میں سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ماضی میں جیلوں کا زیادہ تر بجٹ انفراسٹرکچر پر خرچ ہوتا تھا جس کے باعث اصلاحات اور تربیتی پروگراموں کے لیے مناسب فنڈز دستیاب نہیں ہوتے تھے۔

اب حکمتِ عملی میں تبدیلی کے ذریعے بنیادی انفراسٹرکچر پر پہلے سے کام مکمل کرکے بجٹ کا ایک بڑا حصہ پروڈکشن، ٹیکنالوجی اور اصلاحاتی منصوبوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ سوچ اس تصور کو بدل رہی ہے کہ جیل صرف قید خانہ ہے۔ اگر یہی مجرم جیل کے اندر مثبت سوچ، کسی ہنر اور نئے عزم کے ساتھ تیار ہو کر باہر نکلیں تو وہ معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔ ایک ہنر نہ صرف روزگار کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ انسان میں خود اعتمادی اور نئی زندگی کے لیے جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات فاروق نذیر کا وژن اس لحاظ سے قابلِ تحسین ہے کہ وہ قیدیوں کو محض سزا یافتہ مجرم نہیں سمجھتے بلکہ انہیں تربیت، سہولت اور بہتر مستقبل کا موقع دینے کے خواہاں ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ قیدیوں کو اگر معاشرے کا کارآمد فرد بننے کا موقع دیا جائے تو وہ رہائی کے بعد دوبارہ جرم کی دنیا میں نہیں لوٹیں گے۔ یہ سوچ جیلوں کے روایتی اور سخت چہرے کو بدلنے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔ اگر اس سلسلے کو مضبوطی سے جاری رکھا گیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی جیلیں صرف سزا دینے کی جگہ نہیں رہیں گی بلکہ اصلاح اور تعمیر نو کے مراکز میں تبدیل ہو جائیں گی۔ وہاں سے قیدی محض آزاد نہیں بلکہ باہمت، ہنرمند اور باشعور شہری بن کر نکلیں گے جو معاشرے کے لیے روشنی کا چراغ ثابت ہوں گے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی محض ایک ادارے کی اصلاح نہیں بلکہ ایک سوچ کی پرواز ہے جو جرم کے دائرے کو تنگ اور اصلاح کے امکانات کو وسیع کر رہی ہے۔ جیلوں کو سزا کا مرکز سمجھنے کے بجائے اگر اصلاح اور تربیت کا مرکز بنایا جائے تو یہ معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں جیلوں کے نظام میں یہ اصلاحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو قید کے اندھیروں کو بھی روشنی میں بدلا جا سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran