دنیا کی معیشت میں وقت کے ساتھ ساتھ اقدار بدلتی رہی ہیں۔ کبھی سونا سب سے بڑی کرنسی سمجھا جاتا تھا، کبھی تیل تو کبھی ڈالر۔ مگر آج کے ڈیجیٹل دور میں سب سے قیمتی سرمایہ "انسانی توجہ" ہے۔ یہی وہ کرنسی ہے جس پر گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز اپنی سلطنتیں قائم کر چکے ہیں۔ ماہرین اسے "اٹینشن اکانومی" کہتے ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جو انسان کے ذہن اور اس کے محدود وقت پر قبضہ کرکے چلتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس نظام میں منافع کمپنیاں کماتی ہیں جبکہ نقصان فرد اور معاشرہ سہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اکثر "اٹینشن اکانومی ٹریپ" یعنی "توجہ کا جال" کہا جاتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر انسانی کمزوری پر کھڑا ہے۔ ہمارے دماغ میں ہر نئی اطلاع یا خبر کے لیے ایک غیر معمولی کشش ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ موبائل پر نوٹیفکیشن آتے ہی ہم فوراً متوجہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوٹیوب کا آٹو پلے فیچر، انسٹاگرام کی رِیل، ٹک ٹاک کی مختصر ویڈیوز اور فیس بک کا انفینٹ سکرول سب اس حکمت عملی کے تحت تیار کیے گئے ہیں کہ صارف زیادہ دیر تک جڑا رہے، زیادہ ویڈیوز دیکھے اور زیادہ اشتہارات دیکھنے پر مجبور ہو۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق ایک عام سمارٹ فون صارف روزانہ اوسطاً 2627 بار اپنی سکرین ٹچ کرتا ہے۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انسان اب اپنا ارتکاز بھی کنٹرول نہیں کر پا رہا بلکہ الگورتھمز کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک عام انسان روزانہ اوسطاً چھ سے سات گھنٹے آن لائن گزارتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف ہوتا ہے۔ یوٹیوب پر ہر منٹ میں تقریباََ پانچ سو گھنٹے ویڈیو آپ لوڈ ہوتی ہے جبکہ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر روزانہ لاکھوں کلپس شامل ہوتے ہیں۔ اس قدر معلومات کے شور میں سچ اور غیر ضروری تفصیلات میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکا میں کیے گئے
ایک سروے کے مطابق چونسٹھ فیصد نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا چھوڑ دیں لیکن اب جو لت لگ چکی ہے وہ نہیں چھٹ رہی۔ پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ پی ٹی اے کے مطابق 2025 تک ملک میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ یہ جال صرف وقت کا زیاں نہیں بلکہ ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ جب ہر چند منٹ بعد موبائل بجتا ہے اور نئی اطلاع آتی ہے تو دماغ کے اندر موجود ڈوپامین سرکٹ بار بار متحرک ہوتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کسی ایک کام پر زیادہ دیر تک توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے اب ایک گھنٹہ کتاب پڑھنا یا لیکچر سننا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ مسلسل تقابل اور لائکس کی دوڑ نے بے چینی اور ڈپریشن کو جنم دیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ نوجوان جو روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات ساٹھ فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف فرد تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ گھروں میں اب لوگ ایک دوسرے کے بجائے موبائل سکرینوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
رشتے، بات چیت اور خاندانی وقت سب متاثر ہو رہا ہے۔ سیاست میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایسے مواد کو زیادہ فروغ دیتے ہیں جو متنازع اور جذباتی ہو کیونکہ یہی مواد زیادہ انگیجمنٹ پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم اور شدت پسندی بڑھتی ہے۔ تعلیم پر بھی اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ طلبہ آن لائن کلاسوں یا تحقیق کے بجائے زیادہ وقت ویڈیوز دیکھنے اور ٹرینڈز فالو کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ صورتحال اب صرف مباحثے تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی سطح پر پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ یورپی یونین نے "ڈیجیٹل سروسز ایکٹ" کے ذریعے کمپنیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے الگورتھمز کی شفافیت دکھائیں۔ امریکا میں"کڈز آن لائن سیفٹی ایکٹ" پر کام جاری ہے تاکہ بچوں کو ڈیجیٹل نشے سے بچایا جا سکے۔
بھارت نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی، جس کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل لت تھی۔ پاکستان میں بھی ضرورت ہے کہ حکومت ایسے قوانین متعارف کرائے جو کم عمر صارفین کی حفاظت کریں اور کمپنیوں کو ذمہ دار بنائیں۔ اس جال سے نکلنے کا راستہ صرف حکومت کے اقدامات پر منحصر نہیں بلکہ فرد کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ سب سے پہلے ڈیجیٹل ڈٹاکس کو معمول بنانا ضروری ہے۔ دن میں کچھ وقت موبائل اور سوشل میڈیا سے مکمل دوری اختیار کی جائے۔ غیر ضروری ایپس کی نوٹیفکیشن بند کر دی جائیں تاکہ ہر لمحہ ذہن الجھا نہ رہے۔
اصل زندگی میں دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی جائے۔ بچوں کو شروع سے یہ شعور دینا ضروری ہے کہ ان کی توجہ سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو شفاف اور جواب دہ بنانے کے لیے مؤثر پالیسی سازی کریں۔ اٹینشن اکانومی ٹریپ ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں انسان اپنی مرضی سے داخل نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ اسے گھسیٹ کر لے جایا گیا ہے۔
آج انسان اپنی محنت اور جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ بھی بیچ رہا ہے۔ اگر ہم نے اس جال سے نکلنے کی کوشش نہ کی تو آنے والی نسلیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ جیسی قیمتی دولت بھی کھو بیٹھیں گی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم فرد کی سطح پر بھی احتیاط کریں اور اجتماعی سطح پر قوانین اور آگاہی کے ذریعے اس معیشت کے نقصانات کو کم کریں، ورنہ مستقبل کی معاشرتی اور ذہنی صحت کا بحران ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہوا ملے گا۔ سوال یہ نہیں کہ ہم نے سوشل میڈیا پر کتنا وقت گزارا بلکہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہماری زندگی سے کتنا وقت چرا لیا ہے۔