Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Syed Badar Saeed/
  3. Kya Waqai Tareekh Bahaduron Ko Yaad Rakhti Hai?

Kya Waqai Tareekh Bahaduron Ko Yaad Rakhti Hai?

مکالمہ کہاں سے جنم لے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ کبھی ایک لفظ، کبھی ایک جملہ اور کبھی محض ایک خیال، سوچ کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ایک خیال دوسرے کو جنم دیتا ہے اور یوں گفتگو ایک ایسی سمت اختیار کر لیتی ہے جو ابتدا میں ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ اس کالم کی بنیاد بھی ایک ایسے ہی مکالمے میں رکھی گئی۔

لاہور کے ایک دانشور ڈی ایس پی قمر عباس نے سوشل میڈیا پر لکھا: "اگر آپ زندہ انسان ہیں تو غلط باتوں کی مخالفت کرنا سیکھیں۔ لہروں کے ساتھ لاشیں بہا کرتی ہیں، تیراک نہیں"۔ یہ جملہ پڑھتے ہی ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ میں نے فوراً لکھ دیا: "لہروں کی مخالف سمت تیرنے والے تیراک جلد تھک جاتے ہیں اور پھر لاش کی صورت انہی لہروں کے ساتھ بہتے جاتے ہیں"۔ جواب ملا: "ہم سب زندہ لاشیں ہیں"۔

یہ جملہ اس مکالمے کو ایک نئے موڑ پر لے گیا۔ اسی ڈی ایس پی نے ایک اور جملہ لکھا: تاریخ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ میں نے ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے عرض کیا: نہیں جناب! تاریخ بہادروں کو یاد نہیں رکھتی، یہ صرف ایلیٹ کو یاد رکھتی ہے۔ اس میں وہ نام محفوظ رہتے ہیں جنہیں تخت نصیب ہوا، یا وہ سازشی جو پس پردہ سلطنت کے فیصلے کرتے رہے۔ اگر تاریخ واقعی بہادروں کو یاد رکھتی تو ان گمنام سپاہیوں کے نام بھی امر ہوتے جن کے خون سے میدان جنگ کی مٹی سرخ ہوئی، مگر جن کے وجود کا ذکر تک ہمیں نہیں ملتا۔

راجہ داہر اور محمد بن قاسم دونوں کے نام تو ہمارے نصاب میں درج ہیں مگر ان کے لشکروں میں شامل ان بہادر فوجیوں کا کوئی تذکرہ نہیں جنہوں نے جانیں دے کر جنگ کا فیصلہ بدل دیا۔ یہ اس لیے کہ صدیوں سے تاریخ مورخ کے قلم سے لکھی جاتی ہے اور مورخ ہمیشہ طاقتور کے دربار سے جڑا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں یہ دربار محلوں میں ہوتا تھا اور آج سکرین پر ہے۔ ماضی کا مورخ بادشاہ کی مدح سرائی کرتا تھا تو آج کا مورخ ریٹنگ اور سپانسر کے حساب سے خبر تراشتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آج کون سا صحافی، اینکر یا کالم نگار کس جماعت کی قصیدہ گوئی کر رہا ہے اور کس کے خلاف تاریخ رقم کر رہا ہے۔ کون سچ کہتا ہے، کون آدھا سچ اور کون سنسنی میں لپٹے جھوٹ کو بیچ رہا ہے۔ یاد رکھیے، آج کے یہ کالم، یہ سوشل میڈیا پوسٹس اور یہ وی لاگز ہی کل کی تاریخ کہلائیں گے۔ اگر ہم اس ڈیجیٹل دور میں جھوٹ کو روکنے سے قاصر ہیں تو سوچ لیجیے کہ ماضی میں حقائق کا تحفظ کتنا کٹھن کام رہا ہوگا۔

مثال ہمارے سامنے ہے: کچھ یوٹیوبرز گزشتہ دو برس سے ہر ہفتے یہ خبر بریک کرتے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں ایک اہم ملاقات ہوئی ہے، یا یہ کہ بانی تحریک انصاف اسی ہفتے رہا ہوں گے۔ دو سال بیت گئے، نہ وہ ہفتہ آیا اور نہ کسی نے اپنے جھوٹے دعوے ہذف کرنے کی جرأت دکھائی۔ مگر یہ سب کچھ ویڈیوز اور تحریریں دھڑلے سے تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں۔

اسی شام لاہور پریس کلب کی لائبریری میں چند سینئر صحافی دوستوں کے ساتھ یہ مکالمہ ایک بھرپور مباحثے میں بدل گیا۔ دیواروں پر منہاج برنا اور ظہیر کاشمیری جیسے بے خوف صحافیوں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ ایک ساتھی نے کہا: دیکھو، تاریخ نے انہیں یاد رکھا ہے۔ میں نے مسکرا کر کہا: انہیں تاریخ نہیں بلکہ ہم جیسے چند لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری جامعات کے نصاب میں ان کا ذکر تک نہیں۔ ماس کمیونیکیشن کے طالب علم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ منہاج برنا کس عہد کا نام ہیں، یا ظہیر کاشمیری کون تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جیب خالی مگر ضمیر روشن رکھتے ہوئے آزادی صحافت کی پہلی جنگ لڑی۔ آج نہ نصاب میں ان کا ذکر ہے اور نہ ہی نئے آنے والے بیشتر صحافی ان سے واقف ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافی یہی ہے کہ یہ بادشاہوں، جرنیلوں اور ایوانِ اقتدار کے مکینوں کے نام تو سنہری حروف میں لکھتی ہے مگر ان کارکنوں اور گمنام سپاہیوں کو حاشیے میں دھکیل دیتی ہے جن کے بغیر فتوحات ممکن نہ تھیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اسی دھارے کے ساتھ بہہ جائیں یا اس کے خلاف تیراکی کریں؟ مخالف سمت تیرنا آسان نہیں، یہ تھکا دیتا ہے، آپ کو تنہا کر دیتا ہے اور اکثر شکستہ بھی۔ مگر تاریخ کو درست کرنے کا راستہ یہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک علمی تحریک کا آغاز کریں۔ ایسے سیمینارز اور مکالمے ہوں جن میں سوال اٹھایا جائے کہ تاریخ میں وہ بہادر کہاں ہیں جن کے لہو سے فتوحات ممکن ہوئیں؟ ہمیں مورخ کو یہ بتانا ہوگا کہ بادشاہوں اور جرنیلوں کے ساتھ اپنی کتاب میں ان گمنام کرداروں کو بھی جگہ دو جن کے بغیر یہ فتوحات ممکن نہ تھیں۔

اگر آج ہم نے اپنے نصاب، اپنے میڈیا اور اپنی تاریخ کو درست نہ کیا تو آنے والی نسلیں بھی یہی سمجھیں گی کہ تاریخ کا آغاز اور انجام صرف ایوانِ اقتدار سے ہوتا ہے اور یوں منہاج برنا، ظہیر کاشمیری اور ان جیسے بے شمار کردار ہماری یادداشت سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے۔ تاریخ صرف تاج اور تخت کا قصہ نہیں، یہ خون اور پسینے سے لکھی جانے والی داستان ہے۔ جب تک ہم اس داستان کے سب کرداروں کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے، ہماری تاریخ ادھوری اور ہماری سوچ محکوم رہے گی۔

یہ سچ ہے کہ تخت و تاج کے قصے آنے والے زمانوں میں بھی سنائے جائیں گے مگر اصل تاریخ وہ ہوگی جو اس مٹی میں دفن گمنام کرداروں کو پہچانے گی۔ جب تک قلم ان کے نام نہیں لکھے گا، تاریخ ادھوری رہے گی اور ہم سب محض بہتے ہوئے پانی کی لاشیں ہوں گے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran