پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ہم روایتی صحافت سے ڈیجیٹل میڈیا اور اب ڈیجیٹل میڈیا سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میڈیا کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کی ایسی دوڑ ہے جس میں امریکا اور چین دونوں ہی اپنی فتح کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے بہت تیز بھاگ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔
اگلے چھ ماہ سے ایک سال میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہوگا۔ کئی طرح کی ملازمتیں ختم ہونے لگیں گی اور کئی نئی ملازمتیں جنم لیں گی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پہلے سائنس فکشن کا موضوع سمجھی جاتی تھی لیکن آج تحقیقاتی صحافت، ڈیٹا اینالیسس، آڈیو و ویڈیو پروڈکشن اور خبروں کی خودکار تحریر میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ دنیا کے معتبر ترین ادارے جیسے "واشنگٹن پوسٹ"، "بی بی سی"، "رائٹرز" اور "دی گارڈین" اے آئی بیسڈ نیوز فیڈ، ڈیٹا ڈرِون ریسرچ اور روبوٹک ایڈیٹنگ کو اپنے روزمرہ کے نظام میں شامل کر چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی صحافیوں کو اس دوڑ میں پیچھے رکھنا زیادتی کے مترادف ہے۔
بدقسمتی سے باقاعدہ کورس اور ادارے نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کی اکثریت اے آئی سے نابلد ہونے کی وجہ سے تکنیکی مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری تھا کہ صحافیوں کے لیے ڈیجیٹل میڈیا اور آرٹیفیشل میڈیا سے متعلق ٹریننگ سیشن اور کورسز شروع ہوں۔ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ممبر کی حیثیت سے میں اس منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ ہمیں یہ احساس تھا کہ اس معاملے میں "اب نہیں تو کبھی نہیں" والی صورت حال درپیش ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ روایتی صحافت تنزلی کا شکار ہے، ادارے سکڑ رہے ہیں، تنخواہیں کم ہو رہی ہیں اور میڈیا ورکرز روزگار کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ان حالات میں لاہور پریس کلب کی جانب سے "آرٹیفیشل انٹیلیجنس فار میڈیا" کورس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف لاہور بلکہ ملک بھر کے صحافیوں کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے کیونکہ یہ پاکستان کا پہلا پریس کلب ہے جس نے باقاعدہ طور پر اپنے ممبران کے لیے اے آئی کا طویل مدتی تربیتی کورس شروع کیا ہے۔ لاہور پریس کلب کے اس کورس کا بنیادی مقصد صحافیوں کو جدید ڈیجیٹل ٹولز سے آشنا کرنا ہے تاکہ وہ تیزی سے بدلتے ہوئے صحافتی منظرنامے میں اپنی جگہ برقرار رکھ سکیں۔ اس کورس میں صحافیوں کو نہ صرف بنیادی اے آئی سکلز سکھائی جا رہی ہیں بلکہ انہیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح چیٹ جی پی ٹی، کاپی اے آئی، پکٹ، ڈی اے ایل ای، وائس اوور ٹولز اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے خودکار سسٹمز کو خبر سازی، فیچر رائٹنگ، انٹرویو پریپریشن اور ڈیجیٹل اشاعت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آج جب ہم جامعات میں میڈیا اور جرنلزم کے شعبے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نصاب میں کہیں بھی پریکٹیکل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی شمولیت نظر نہیں آتی۔ نہ ہی اساتذہ کو ان سکلز کی تربیت دی گئی ہے اور نہ ہی طلبہ کو ان سے روشناس کرایا گیا ہے۔ جامعات کے لیے بھی کام ہو چکا ہے کہ صحافت کے طالب علموں کے لیے یہ کورس متعارف کرائیں کیونکہ ڈیجیٹل صحافت کا نیا چیلنج یہ ہے کہ رپورٹر کو محض خبر لکھنی نہیں، بلکہ اسے خود ریسرچ کرنا ہے، گرافکس بنانی ہیں، ویڈیو ایڈیٹ کرنی ہے، وائس اوور کرنا ہے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر آپ لوڈ بھی کرنا ہے۔
یہ سب کام ایک وقت میں ایک ہی فرد سے متوقع ہیں۔ ایسے میں اے آئی سیکھنا مجبوری نہیں، ضرورت ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ "روزی کا نیا ہنر" اب اے آئی بن چکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک عام رپورٹر یا سب ایڈیٹر جو پہلے صرف نوکری کا محتاج تھا، اب فری لانسر بن کر دنیا کے کسی بھی میڈیا ادارے کے لیے ڈیجیٹل کانٹنٹ بنا سکتا ہے۔ اسے گھر بیٹھے کمائی کا موقع میسر ہے، جو مالی خودمختاری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دیگر پریس کلبز کو بھی لاہور پریس کلب کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔
اسلام آباد، کراچی، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور کے پریس کلبز اگر صحافیوں کی تربیت کے لیے ایسے طویل مدتی کورسز کا آغاز کریں تو پاکستان میں ڈیجیٹل صحافت کا انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ حکومت، ایچ ای سی اور میڈیا ہاؤسز کو بھی چاہیے کہ وہ اے آئی ٹریننگ کو قومی پالیسی کا حصہ بنائیں۔ صحافت کے طلبہ، میڈیا پروفیشنلز اور ایڈیٹرز کے لیے اے آئی ماڈیولز، ڈیجیٹل رپورٹنگ ورکشاپس اور گرانٹس فراہم کی جائیں تاکہ ہمارا میڈیا دنیا کی صفِ اول کی ڈیجیٹل صحافت کا مقابلہ کر سکے۔
یہ صرف ایک کورس نہیں بلکہ ایک وژن ہے۔ اگر اس وژن کو پالیسی، عمل اور مسلسل تربیت کے ذریعے تقویت دی گئی تو پاکستان میں میڈیا کا مستقبل روشن ہوگا ورنہ ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔ آج اگر ایک ادارہ، یعنی لاہور پریس کلب ایک نئی سمت کا تعین کر سکتا ہے تو کل یہی سمت پورے ملک کا رخ بدل سکتی ہے۔