Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Syed Badar Saeed/
  3. Subjective Walon Ke Dukh

Subjective Walon Ke Dukh

ہر سال میٹرک کے رزلٹ کے ساتھ ہی ہم پچھلی صدی میں جنم لینے والوں کے دکھ تازہ ہو جاتے ہیں۔ اوبجیکٹیو والے ذہین بچوں کو کیا خبر سبجیکٹو والوں کے دکھ بھی ان کے ساتھ ایک صدی سے دوسری صدی میں منتقل ہوئے ہیں۔ یہ دکھ وہی جانتے ہیں جو پچھلی صدی میں پیدا ہوئے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جنہیں ہر سال میٹرک کے نتیجے کے بعد اپنا رزلٹ کارڈ مزید چھپانا پڑتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کلاس میں پہلی پوزیشن لینے کے باوجود ہم آج کے بچوں کو اپنا رزلٹ نہیں دکھا سکتے، وہی بچے جو 1190 نمبر لے کر بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں۔

ہمارا زمانہ بہت پرانا نہیں ہے لیکن اس وقت نیک لوگ سسٹم بدلنے کی دعا کرتے تھے اور یہ دعا کم از کم پیپر پیٹرن کی حد تک قبول ہوگئی۔ ہمارے زمانے میں سبجیکٹو پیپرز ہوتے تھے جس میں بیس نمبر کے سوال میں سے سب سے پہلے آٹھ نمبر بلاوجہ کاٹے جاتے اور پھر مارکنگ کا آغاز ہوتا تھا۔ صفائی کے نمبر الگ کٹتے اور جسے صفائی کے نمبر ملتے وہ اکثر آخری سوال ادھورا چھوڑ دیتا تھا، یوں انصاف کا ترازو برابر ہو جاتا۔ اس زمانے کے صفائی پسند طلبہ آج عملی زندگی میں بھی صفائی کے محکمے سے وابستہ ہیں اور جنہوں نے خوشخطی کے بغیر ایکسٹرا شیٹس بھریں، ان کی لکھائی یا تو وہی ممتحن سمجھ سکتا تھا یا آج میڈیکل اسٹور والا۔ ہمیں نہ تب سمجھ آتی تھی کہ کیا لکھا ہے، نہ آج کسی ہزار روپے کے نسخے کا مطلب سمجھ آتا ہے۔

اس زمانے میں ایکسٹرا شیٹ نہ لگانے والا نکما تصور ہوتا تھا۔ ہم اردو بازار سے رف کاغذ تول کر لاتے اور دو گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ ایکسٹرا شیٹس لگانے کی مشق کرتے تھے۔ جواب کو ربڑ کی طرح کھینچ کر لمبا کرنے کا ہنر ہم نے ایجاد کیا تھا۔ کوئی "بیسٹ فرینڈ" والے مضمون میں اپنے دوست کامران کا "پسندیدہ کھیل کرکٹ" کا ٹوٹا جوڑ کر "مائی فیورٹ گیم" والا رٹا چسپاں کرتا، تو کوئی "مائی فیورٹ گیم" میں کامران کے قصے جوڑ کر پورا مضمون گھڑ لیتا۔ پیپر کی تیاری کے دوران الفاظ فی صفحہ گنے جاتے اور ہر سوال کے جواب کے لیے صفحات کی کم از کم تعداد طے کی جاتی اور زیادہ شیٹس بھرنے والا "غدار" تصور ہوتا تھا۔ ایک ہی مضمون میں "میرا بہترین دوست"، "پسندیدہ کھیل"، "قائداعظم"، "علامہ اقبال" اور "جغرافیہ" تک سمو دینا اصل فن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوال چاہے کچھ بھی ہو ہمارا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا۔ یہ جواب کچھ یوں شروع ہوتا:

"کامران میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ اُسے کرکٹ پسند ہے۔ کرکٹ انگریزوں کا کھیل ہے۔ انگریز قائداعظم سے ڈرتے تھے کیونکہ قائداعظم نے پاکستان بنانا تھا۔ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا۔ وہ ہمارے قومی شاعر ہیں۔ میرے دوست کامران کو بھی علامہ اقبال اور قائداعظم بہت پسند ہیں۔ اسی لیے کل اُس نے مینارِ پاکستان کے پاس کرکٹ کھیلتے ہوئے یادگار چھکا لگایا۔ مینار پاکستان بھی قرار داد پاکستان کی یادگار ہے۔۔ " یوں ایک مضمون سے کئی سوالوں کا کام نکال لیا جاتا۔ ہماری کلاس میں ہی نہیں، بلکہ اردگرد کے اسکولوں میں بھی سب کا "بیسٹ فرینڈ" کامران ہی ہوتا تھا اور اس کی خوبیاں بھی یکساں ہوتی تھیں۔ ہم تین صفحات "مائی فیورٹ گیم" پر لکھتے تھے تو اس کے آخر میں یہ جملہ شامل کر دیتے تھے: "کرکٹ ہمیں اتحاد، قربانی اور ہار نہ ماننے کا سبق دیتی ہے"۔

آج کے اوبجیکٹیو بچوں کو کیا پتہ، ہم سبجیکٹو والوں کے دکھ ہی کچھ اور تھے۔ اُس زمانے میں بارہ سو نمبر کا کوئی تصور نہ تھا اور اگر ہوتا، تو ماسٹر جی کے ابا بھی ساڑھے گیارہ سو نہیں لے سکتے تھے۔ پیپر چیکر خود اپنے بیٹے کو 900 سے زیادہ نمبر دینے کی جرأت نہ کرتا۔ 70 فیصد نمبر آ جانا "سپر اسٹار" بننے کی علامت تھی اور اگر کسی کو غلطی سے 80 فیصد آ جاتے، تو خاندان میں شور مچ جاتا کہ "اب یہ بچہ آئی ایس آئی میں جا رہا ہے! " آج اگر کسی بچے کے 1180 نمبر آ جائیں، تو ماں کہتی ہے: "پتر، صدقہ دینا چاہیے تھا، نظر لگ گئی"۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہم سبجیکٹو والوں کا بھی ایک دور گزرا ہے۔ یہ وہ ظالم دور تھا جہاں نمبر لینے کے لیے دماغ، کلائی، بازو، صبر، ربڑ، گم، رف کاغذ اور تھوڑی سی شاعری بھی درکار ہوتی تھی۔ پرچہ دیکھتے ہی پہلے پانچ منٹ ہم ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گزارتے، اس امید میں کہ کوئی سوال تو ایسا ہو جو یاد ہو۔ لیکن یہ احساس پیپر ختم ہونے کے بعد آتا کہ سب سوال یاد تھے!

اگر کبھی استاد کہہ دیتا: "اس سوال کے پورے نمبر ملیں گے" تو مطلب ہوتا: "پچیس میں سے تیرہ اور وہ بھی دعا سے! "۔ آج کے بچے فخر سے کہتے ہیں: "ہم نے 1200 میں سے 1190 لیے ہیں"۔

ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں: "ہم 850 میں سے 602 نمبر سب سے بڑی کامیابی سمجھتے تھے اور یہ نمبر بھی ماں کی دعا، خالہ کی گڑ کی ڈلی اور دو دن کا روزہ رکھ کر قسمت والوں کو ملتے تھے" سو میں سے 33 نمبر والا کامیاب تصور ہوتا تھا اور پیپر کے بعد دعا بھی 33 نمبر کی ہی مانگی جاتی تھی۔

اے اوبجیکٹیو مارنے والو! تم کیا جانو:

کبھی اضافی شیٹ کی بھیک مانگی؟ کبھی ربڑ سے سیاہی مٹائی تاکہ صفائی کے نمبر بچ جائیں؟ کبھی ایک سوال کے جواب میں تین مضامین جوڑے؟ نہین نا؟ تو یاد رکھنا اس دنیا میں سب کچھ معاف ہے مگر سبجیکٹو کا پرچہ چھوڑ کر 1195 نمبر لینا کبھی معاف نہیں ہوگا۔ اوبجیکٹیو والوں کی وجہ سے ہم پچھلی صدی میں پیدا ہونے والوں نے فرسٹ ڈویژن یعنی اے گریڈ لینے باوجود اپنی ڈگریاں اور رزلٹ کارڈ جس پیٹی میں چھپائے ہیں، اب ہر سال رزلٹ آنے کے بعد اس پر ایک اور تالا لگانا پڑتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran