Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Syed Badar Saeed/
  3. Universitiyon Ki Veerani Aur Landa Bazar Ki Ronaqen

Universitiyon Ki Veerani Aur Landa Bazar Ki Ronaqen

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے کبھی خواب دیکھنے والوں سے بھرے رہتے تھے لیکن اس سال پنجاب کی بڑی سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلوں کی صورتحال بتا رہی ہے کہ اب وہی دروازے دستک کو ترسنے لگے ہیں۔ کئی اداروں میں 20 سے 30 فیصد تک طلبہ کم داخل ہوئے ہیں۔ یہ محض ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا سماجی بحران چھپا ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں گھر کا بجٹ سب سے پہلے تعلیم پر ضرب لگاتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا، ایندھن اور دوائوں کی قیمتیں بڑھتے ہی تعلیم غیر ضروری خرچ سمجھی جانے لگتی ہے۔ والدین جب روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں ہی لڑکھڑا جائیں تو یونیورسٹی کی فیس، ہاسٹل کا خرچ اور ٹرانسپورٹ لازمی طور پر قربانی کی فہرست میں آ جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2025 میں مہنگائی کی شرح 4.1 فیصد تک پہنچ گئی جو کہ جون کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی آج غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اگر اسے اعداد و شمار میں دیکھیں تو 24 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 11 کروڑ لوگ غربت کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کی 67 فیصد آبادی یعنی 16 کروڑ سے زائد افراد نوجوان ہیں۔ یعنی دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادیوں میں سے ایک معاشی دبائو تلے پس رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر دوسرا نوجوان غربت کا شکار ہو جائے تو مستقبل کا خواب کون دیکھے گا؟

تحقیق بتاتی ہے کہ اعلیٰ ڈگریوں کے حامل نوجوان بھی غربت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق ڈگری ہولڈر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 31 فیصد سے زیادہ ہے۔ انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس جیسے شعبوں میں تو یہ شرح دو سال میں دوگنی ہوگئی۔ مطلب یہ کہ اب محض ڈگری لینے سے نوکری کی ضمانت نہیں رہی۔ جب ابتدائی تنخواہیں کم ہوں اور مواقع محدود، تو نوجوان کی امیدیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔

میں نے صورت حال سمجھنے کے لیے غریبوں کے بازار یعنی لنڈا بازار کی اکانومی کا جائزہ لیا تو حیرت اور دکھ نے گھیر لیا۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال 511 ملین ڈالر کے استعمال شدہ کپڑے پاکستان میں درآمد کیے گئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ متوسط طبقہ بھی نئے کپڑے خریدنے کے قابل نہیں رہا۔ جب لباس جیسی بنیادی ضرورت کے لیے لوگ سوچ سمجھ کر خرچ کریں تو یونیورسٹی کی فیسیں اور ہاسٹل کا خرچ تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

تعلیم اور روزگار کی اس بند گلی کا ایک ہی راستہ ہمارے نوجوانوں کو نظر آتا ہے اور وہ ہے بیرون ملک چلے جانا۔ صرف 2024 میں سات لاکھ سے زیادہ پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گئے۔ 2025 کی پہلی ششماہی میں مزید ساڑھے تین لاکھ لوگ ملک چھوڑ گئے۔ جب بڑے بھائی یا والد مشرقِ وسطیٰ جاتے ہیں تو گھر کے نوجوان بھی شارٹ کورسز یا ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جلد کمائی شروع ہو سکے۔ جب تعلیم اور روزگار کی زنجیر کمزور ہوتی ہے تو سماجی خطرات بڑھتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائم میں اضافہ اسی دبائو کا نتیجہ ہے۔

یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی جہاں بڑھیں وہاں جرائم بھی بڑھتے ہیں۔ یہ صرف پولیسنگ کا مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچے کی کمزوری ہے۔ اس کا حل دو طرفہ ہونا چاہیے۔ ایک طرف تعلیم کو سب کے لیے قابلِ برداشت بنانے کے لیے سبسڈی اور سٹوڈنٹ لونز دیئے جائیں اور ڈگری کو مارکیٹ کے ساتھ جوڑنے کے لیے انٹرن شپ پروگرام بنائے جائیں۔ حکومت ایچ ای سی اور سرکاری و نجی یونیورسٹیوں کو اسکالر شپ مہیا کرے جو ذہین طلبا پر خرچ ہوں۔

ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ریسرچ ڈگری کو دنیا بھر کی طرح "جاب ڈگری " بنایا جائے اور ایسی سٹرٹیجی بنائی جائے کہ ادارے ریسرچ فنڈنگ کی جانب متوجہ ہوں، ادارہ جاتی مسائل کا حل ریسرچ اسکالرز تلاش کریں اور انہیں فل فنڈڈ پروگرام دیئے جائیں۔ دوسری طرف بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کو اثاثہ سمجھ کر اسکلز اور ریموٹ ورک کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ واپس آ کر ملکی صنعت میں شامل ہو سکیں۔ پاکستان کے 16 کروڑ نوجوانوں میں سے کروڑوں غربت تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر تعلیم مہنگی اور روزگار محدود رہا تو مزید تعلیم یافتہ بھی غربت سے بچ نہ پائیں گے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر نہ معیشت سنبھلے گی، نہ سیاست اور نہ ہی معاشرتی امن۔ ہم یہ تو دیکھ رہے ہیں کہ جامعات میں داخلے کم ہو رہے ہیں۔

ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس سال استعمال شدہ کپڑا ماضی کی نسبت بہت زیادہ منگوایا گیا ہے، ہم بڑھتے جرائم بھی دیکھ رہے ہیں اور ذہین دماغوں کو بیرون ملک جاتا بھی دیکھ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کا فوری حل بھی دیکھ رہے ہیں؟ کیا ریاست اس جانب متوجہ ہے؟ کیا جامعات اور ریاست اس حوالے سے مل بیٹھنے کو تیار ہے اور ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل بنا رہی ہے۔ مسئلہ صرف جامعات میں داخلے کم ہونے کا نہیں ہے، مسئلہ ہوتی ریاست کا ہے۔ ریاست کو ابھی سوچنا ہے کہ اگلے دس سال بعد یہ 16 کروڑ نوجوان کیا کر رہے ہوں گے؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran