پنجاب پولیس سے کئی شکایات ہیں لیکن پولیس شہدا ہمارے ماتھے کا تاج ہیں۔ زندگی بیچ کر امن خریدنے والوں پر سوال نہیں ہوتا، ان کا احسان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تقریب ایسی ہی تھی۔ اگلے روز پورے ملک میں یوم شہدائے پولیس منایا گیا۔ پنجاب پولیس کی مرکزی تقریب لاہور میں ہوئی جہاں چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب دونوں شریک تھے۔ تقریب سے قبل میں الحمرا ہال کی سیڑھیوں میں کھڑا کیمرہ مین صحافیوں سے بات کر رہا تھا اسی دوران تقریب شروع ہوئی اور قومی ترانہ سنا گیا، میں وہیں احترام میں کھڑا ہوا اور پھر انہی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔
ایک دوست نے کرسی پر بیٹھنے کا کہا تو جواب دیا، یہ تقریب جن کے شہدا کے نام پر ہے ان کے لیے سیڑھیوں میں بیٹھنا بھی اعزاز لگ رہا ہے، بات تو ساری حاضری کی ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ہمیشہ کی طرح جذباتی خطاب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سال میں 365 دن ہیں اور ان 365 دنوں میں صرف بارہ دن ایسے گزرے ہیں جب پولیس نے اپنے شہدا کا جنازہ نہیں اٹھایا۔ آئی جی پنجاب کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن یہاں وہ شاید کچھ باتیں بھول گئے۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے لکھنا ضروری ہے اور انہیں یاد ہونا چاہیے کہ ان بارہ روز کا حساب الگ نہیں ہے۔
پولیس ریکارڈ میں کئی دن ایسے بھی ہیں جب ایک ایک دن میں ایک سے زیادہ جنازے اٹھائے گئے تھے۔ ایک ہی دن میں کئی اہلکار شہید ہوئے تھے اس لیے بات 365 سے آگے چلی جاتی ہے۔ اگلی بار وہ یہ ریکارڈ درست کر لیں کہ سال کے دن کم ہیں اور شہدا کے جنازے زیادہ ہیں۔ میرے لیے یہ تقریر اتنی جذباتی نہیں تھی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے اندازہ تھا کہ اس موقع پر پولیس فورس کے سربراہ اپنی فورس کی قربانیوں اور کم وسائل کا ذکر کریں گے۔ میں جذباتی اس وقت ہوا جب شہدا کے اہل خانہ کو مکان کی فائلیں دی گئیں۔
میں اسے گھر کی بجائے مکان ہی کہوں گا کیونکہ مکان کو گھر بنانے والے نے تو لوٹ کر نہیں آنا۔ میں شہدا کی بیوہ، ماں اور بیٹیوں کو مکان کی چابی دینے پر جذباتی نہیں ہوا بلکہ میری آنکھیں ان کی حالت زار دیکھ کر نم ہوئیں۔ مجھے شہدا کی فیملی سے ایک بھی خاتون ایسی نظر نہیں آئی جس کے پاس برانڈز کے کپڑے یا پرس ہوں۔ عام سے سادہ کپڑے اور غربت زدہ چہرے تھے، اکثر سادہ چپل پہنے ہوئی تھیں۔ یہ ان اہلکاروں کی بیوہ، بچے اور مائیں تھیں جنہوں نے اس قوم کے لیے جان قربان کی ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ پولیس کی رشوت، ظلم، لاقانونیت اور بدمعاشی کی شکایات اپنی جگہ درست لیکن ان میں سے کسی ایک کا حلیہ بھی ایسا کیوں نہیں جس سے لگے کہ ان کے شوہر نے لمبا مال کمایا تھا؟ پھر خیال آیا کہ شہادت بہت بڑا اعزاز ہے، شاید اللہ رب العزت یہ رتبہ بھی انہیں دیتا ہے جو ایمانداری سے اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ شاید یہ تقسیم بھی کہیں ہو چکی ہے کہ ذلت کسے ملے گی اور عزت کس کے نصیب میں ہے۔
بدقسمتی سے ہم سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ یہ شہدا بھی اپنی سروس کے دوران وہ سارے الزامات سہتے ہوں گے جو عمومی طور پر پولیس پر لگائے جاتے ہیں، پھر اس خیال سے لرز جاتا ہوں کہ ان شہدا نے روز آخرت ایسی ہر تہمت کا حساب مانگ لیا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ مکرر عرض ہے کہ پولیس دودھ سے دھلی نہیں ہے۔ پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی، لاقانونیت، ناانصافی اور رشوت کا ایک عالم گواہ ہے۔
یہ تھانہ کلچر اسی معاشرے میں پنپتا ہے لیکن کیا سبھی پولیس ملازم ایک جیسے ہیں؟ کیا مجرم کے حصے کی نفرت اور الزام ایماندار کی جھولی میں ڈالنا عدل ہے؟ رشوت لینے والا یا اختیارات سے تجاوز کرنے والا کوئی ایک پولیس آفیسر یا اہلکار ہمارا ہیرو نہیں ہے اور نہ میں اسے قابل عزت سمجھتا ہوں لیکن جنہوں نے جانیں قربان کیں ان کا کیا ہو؟ پولیس میں ایسے خاندان ہیں جن میں دادا بھی شہید ہوا، باپ بھی شہید ہوا اور پھر بیٹا بھی اسی فورس کا حصہ بن کر شہید ہوا، ایسے واقعات بھی ہیں کہ پہلے ایک بھائی شہید ہوا اور اگلے سال دوسرے بھائی کی شہادت کی خبر آئی۔ ماں نے ان لاشوں کا
سوگ منایا ہے جن کا احترام قوم پر فرض ہے۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پولیس کا ترقیاتی بجٹ ایک سو انتیس ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ اقدامات فورس کو جدید تربیت، وسائل اور سہولیات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یقیناََ یہ بجٹ کم ہے لیکن اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ اگلے سال یوم شہدا پر ہمارے ہیروز کی فیملیز سٹیج پر آئیں تو ان کے لباس اور چہرے غربت کا مظہر نہ ہوں۔ ان کے لیے اچھے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن یہ بہت کم ہے۔ ان کی ویلفیئر کے لیے مزید اقدامات ہونے چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قوم سے گالیاں بھی سنیں اور اپنی جانیں بھی قربان کیں۔
پولیس میں جو کرپٹ ہے اسے سینہ ٹھوک کر کرپٹ کہیں لیکن جو ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرتا ہے اس کی قربانیوں کا اعتراف بھی کریں۔ یہ ریاست ہماری ہے، ہم اس ریاست کے مالک ہیں، ہمارے ٹیکس سے پولیس تنخواہ لیتی ہے اس لیے یہ پولیس بھی ہماری ہے۔ اس کی غلطیوں کی نشاندہی ہمارا فرض ہے، کرپشن پر حساب لینا ہماری ذمہ داری ہے لیکن اس کی شہادتوں اور فرض شناسی کو تسلیم کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔