پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایس پی آئی نائن عدیل اکبر نے بھی مبینہ طور پر اپنے سٹاف کی کلاشنکوف سے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ ایسی المناک خبریں معاشرے اورمتعلقہ اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین کے درمیان خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے مگر اس کی تہہ تک نہیں پہنچا جا سکا، یہ رجحان ریاست کے انتظامی اور اخلاقی ڈھانچے میں موجود نفسیاتی اور سماجی کمزوریوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
بلال پاشا (2023)، ابرار حسین نیکوکارہ (2020)، نبیہ نوشیروانی (2014) اور ایس پی عدیل اکبر (2025) جیسے سینئر بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے کیسز نے عوامی تنظیموں میں خدمات انجام دینے والے افسران پر پڑنے والے مسلسل جذباتی دباؤ اور غیر حقیقی توقعات کو اجاگر کیا ہے۔ بیوروکریٹ محترمہ سمیرا نوشیر ان تلخ حقائق کواپنے ایک مقالہ صورت میں غیر موجود ذمہ داریوں اور جھوٹی کہانیوں اور خودکشی کے رجحان کے درمیان پیچیدہ تعلق کو اجاگر کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ میڈیا کے بیانیے، بیوروکریٹک ثقافت اور ہائی آرکی پر مبنی قیادت کے ذریعے پھیلائی گئی غلط بیانی شناختی بحران، جذباتی تنہائی اور نفسیاتی مایوسی کا سبب بنتی ہے۔
ایک گہرا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح اختیار کی گئی غلط تشریح جو کہ معاشرے اور بیوروکریٹک ہائی آرکی دونوں کے اندر پائی جاتی ہے، ایسے حالات کو پروان چڑھاتی ہے جہاں تناؤ خود کو تباہ کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ خودکشی محض شدید مایوسی کا عمل نہیں ہے، یہ نظام اور نفسیاتی بے ترتیبی کا آئینہ بھی ہے۔ پاکستان، ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اداروں میں تفریق کا ایک جھوٹا درجہ بندی نظام اور اختیار کے بارے میں متضاد سوچ پائی جاتی ہے، یہاں سرکاری ملازمین، جنھیں اکثر قابلیت، استحکام اور لچک کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، شدید جانچ پڑتال اور ذمہ داری کے تحت کام کرتے ہیں۔ تاہم، ڈسپلن اور طاقت کی سماجی شکل کے نیچے نفسیاتی پریشانی کی ایک خاموش وباچھپی ہوئی ہے۔
معاشرے نے کئی ہائی پروفائل خودکشیوں کا مشاہدہ کیا ہے، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کی افسر نبیہ نوشیروانی (2014)جعفر آباد کے ایک سینئر پولیس افسر جہانزیب کاکڑ (2016)**، پولیس ٹریننگ سکول راولپنڈی میں تعینات ابرار حسین نیکوکارہ (2020) اور ایک نوجوان اور ہونہار کنٹونمنٹ بورڈ ایڈمنسٹریٹر بلال پاشا (2023)کی المناک موتیں، نیز اسلام آباد میں ایس پی انڈسٹریل ایریا کے طور پر خدمات انجام دینے والے پی ایس پی افسر عدیل اکبر کا دل دہلا دینے والا واقعہ قومی اضطراب کا سبب بنا ہے۔
ہر کیس، اگرچہ حالات کے لحاظ سے منفرد ہے، مگر ادارہ کا دباؤ، جذباتی تنہائی اور قیادت کی طرف سے ہمدردانہ حمایت کی کمی جیسے مشترکہ پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس رجحان کے بار بار ہونے والے واقعات کو محض ایک نجی سانحہ نہیں، بلکہ ایک ادارہ جاتی ناکامی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں، افسران پر اخلاقی طور پر معصوم یا معاشرے کے ہر لحاظ سے محافظ ہونے کا عوامی اعتماد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ توقعات اور حقیقت کے درمیان یہ ٹوٹ پھوٹ عوام میں، خاص طور پر پسماندہ یا متاثرہ کمیونٹیز میں، سماجی اضطراب اور وجودی مایوسی پیدا کرتی ہے۔
ریاست کے اداروں کے اندر، جہاں سینئر افسران اکثر ناقابل تسخیر ہونے کا ایک افسانہ برقرار رکھتے ہیں، وہاں جذباتی اظہار یا ذہنی صحت کو تسلیم کرنے کو ہلکا سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں، میڈیا اور ثقافتی بیانییافسران کے اخلاقی اور پیشہ ورانہ قد کوہیرو کے پیمانے پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، جس سے غیر حقیقی عوامی توقعات کو فروغ ملتا ہے۔ جب دونوں میں سے کوئی بھی فریق ان توقعات پر پورا نہیں اترتا، تو افسران اور شہری دونوں کو جذباتی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسران احساسِ جرم اور تنہائی کو اندرونی طور پر محسوس کرتے ہیں، جبکہ شہری دھوکہ دہی اور بے بسی کا تجربہ کرتے ہیں۔
نفسیاتی، ثقافتی اور اداروں کیطریقہ کار کا تجزیہ کرتے ہوئے جو ان بگاڑوں کو پیدا کرتے ہیں، یہ مطالعہ یہ جانچنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ بیوروکریسی کی اندرونی حرکیاتخاص طور پر سینئر افسران کا کردار، کس طرح ماتحتوں کی جذباتی کمزوری کو بڑھاتا ہے اور کس طرح عوام کے تنازعات سے بھرے تعلق کی عکاسی کرتی ہیں۔ بالآخر، یہ تجزیہ ہمدردی، اداروں کی شفافیت اور بیانیہ میں اصلاحات کے ذریعے اختیار کو انسانی سطح پر لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
پاکستان میں، اختیار کی عکاسی یونیفارم، عہدوں اور بیوروکریٹک رسومات کے ذریعے کی جاتی ہے، یہ ایسے سماجی سانچے ہیں جو نظم و ضبط، ذہانت اور کنٹرول کی مثالوں کی پرورش کرتے ہیں۔ جب پہلے سے قائم شدہ امیج اور حقیقت کے درمیان تصادم ہوتا ہے، تو اس کا نتیجہ علمی تضاد (cognitive dissonance)اور بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے، جس کے نتیجے میں احساسِ جرم، یا مایوسی کا بے رحمانہ اظہار ہوتا ہے اور شدید صورتوں میں، یہ خودکشی کے خیالات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ عوام کی طرف سے (idealization) اور نظام کی طرف سے غیر انسانی سلوک (dehumanization) تنازعہ کو جنم دیتا ہے۔
عوام افسران کو انصاف، قابلیت اور کارکردگی کا مجسم روپ سمجھتے ہیں، جبکہ وہ ادارے جن میں وہ خدمات انجام دیتے ہیں، اکثر انھیں ایک سخت بیوروکریٹک سیٹ آپ کے اندرغیر منصفانہ ماحول میں جکڑ کر رکھنا چاہتیہیں۔ اس تضاد کو کیا چیز برقرار رکھتی ہے؟ میڈیااور سیاسی گفتگو اکثر افسران کو ناقابلِ تسخیر ہستیوں کے طور پر پیش کرتی ہے جن کی ایمانداری اور استقامت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ سمجھنا کہ افسران جذباتی نشیب و فراز اور عام کمزوریوں سے مبرا ہیں، درست نہیں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اخلاقی ذمہ داریوں اور عوامی تنقید کا ناگزیر سامنا افسران کو کبھی کبھار شدید اقدام اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے پاکستان سول سروس کو تاریخی طور پر ریاست کی رٹ اور اختیارکو قائم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ ڈھانچہ اطاعت، خاموش تسلیم اور استقامت کا تصور پیش کرتارہا، جبکہ افسران کی جذباتیت اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو کم اہمیت دیتا رہا۔ اس طرح افسر ریاست کے اخلاقی نظم کا ایک نشان بن جاتا ہے۔ اندرونی طور پرافسران خود ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصورکو بطور تربیت قبول کر لیتے ہیں جبکہ بیرونی طور پرعوام اور میڈیا نا ممکن سیاسی اور وسائل کی رکاوٹوں کے باوجود بھی مسلسل کارکردگی کی توقع برقرار رکھتے ہیں۔ یہ دوہری حیثیت ایک گہرا علمی تضاد پیدا کرتی ہے۔
عوام میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے ایک افسر، جس کے پاس مراعات اور وقار ہے، وہ کیسے مایوس محسوس کر سکتا ہے؟ ٹیجفل اور ٹرنر (1979) کے مطابق، سماجی درجہ بندی، سماجی شناخت اور سماجی موازنہ نہ صرف تعلق اور خود اعتمادی کے احساس کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں بلکہ معاشرے میں تعصبات اور پولرائزیشن کی وجوہات بھی ہیں۔ سرکاری ملازمین کے معاملے میں، جنھیں اعلیٰ منتظمین کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، جو شدید اور غیر حقیقی نفسیاتی توقعات کے تحت دباؤ میں ہیں اور وہ افسران جو مسلسل ان اندرونی اصولوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں، شناختی بحران اور خود کو موردِ الزام ٹھہرانے کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سماجی ماہر نفسیات جیرارڈ ہینڈرک ہوفسٹیڈ نے پاکستانی معاشرے کو شناخت، طاقت، غیر یقینی اور وقت پر مبنی ایک اجتماعی معاشرہ قرار دیا۔ ان افسران سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جذباتی یا اخلاقی مکالمے میں شامل ہوئے بغیر، بغیر کسی سوال کے احترام کا مطالبہ کری گے۔ افسران نہ تو کمزوری کا اظہار کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے قبول کر سکتے ہیں۔ اداروں کے اندر، سینئرز ماتحتوں سے غیر متزلزل ڈسپلن اور لچک کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں انسانی کمزوری کو کمزوری کا اظہار سمجھا جاتا ہے اور مایوسی کو نجی بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بیوروکریٹک اور سکیورٹی اداروں میں ذہنی صحت کو توجہ نہیں دی جاتی، نفسیاتی پریشانی کو تسلیم کرنا اختیار کو کمزور کرنیکے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
خودکشیوں کو اکثر اوپری سطح کا واقعہ یا انفرادی ناکامیوں کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ذاتی سطح پر فریم کرنیسے ادارے ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں اور وہ خاموشی برقرار رہتی ہے جو مایوسی کو اپنے شکنجے میں لینے کی اجازت دیتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اداروں کے ذمہ داران کی طرف سے غلط بیانی اور سماجی دباؤ کا خوف افسران میں نقصان دہ علامات کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان میں سول سروس کو طویل عرصے سے ایک مراعات یافتہ اور ایک مقدس فرض کے طور پر رومانوی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جو افسران (CSS) کا امتحان پاس کرتے ہیں، انھیں قابلیت، ذہانت اور قومی فخر کے مصدقہ افرادکے طور پر سراہا جاتا ہے۔ تاہم، وقار کے پیچھے اداروں کی سختی، سیاسی جوڑ توڑ اور جذباتی بیگانگی چھپی ہوئی ہے۔
بلال پاشاایک نوجوان سی ایس ایس افسر، جو ایک حقیقی غریب پس منظرسے تعلق رکھتا تھا اور 2023ء میں خودکشی سے انتقال کر گیا، کو ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر شاندار، مثالی اور انتہائی باضمیرکے طور پر بیان کیا۔ ان کی موت نے افسران میں تناؤ اور ڈپریشن کو بے نقاب کیا۔ ان کی موت کے ارد گرد سوشل میڈیا پر بحث نے اس سماجی عدم یقین کو ظاہر کیا کہ ان کے معیار کا افسر مایوسی کا شکارہو سکتا ہے۔ ایسی کہانیاں افسران کو مزید تنہا کر دیتی ہیں اور انھیں اپنی مشکلات کو پیشہ ورانہ کارکردگیوں کے پیچھے چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔
ابرار حسین نیکوکارہ ایک سینئر پولیس افسر اور پولیس ٹریننگ سکول راولپنڈی کے پرنسپل، جنوری 2020ء میں خودکشی سے انتقال کر گئے۔ رپورٹس کے مطابق، ان کے خودکشی کو(existential futility) کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ساتھیوں نے انھیں ادارہ کی سیاست اور اخلاقی مایوسی سے گہرا بوجھل قرار دیا۔ نیکوکارہ کا کیس ایک بار بار آنے والے موضوع کی عکاسی کرتا ہے افسران اخلاقی یقین اور ادارہ جاتی حقیقت کے درمیان الجھے ہوئے ہیں جو ان کے مقصد کے احساس کو ختم کر دیتا ہے۔ ان تضادات کو حل کرنے میں ناکامی بے مقصدیت اور تنہائی کے جذبات کو تیز کرتی ہے۔ سیاسی مداخلت پاکستان میں افسران کے درمیان نفسیاتی پریشانی میں ایک اور بڑا حصہ ڈالنے والا عنصر ہے۔
تبادلے اور اداروں میں سیاسی کارروائیاں اکثر بطور ہتھکنڈہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ حرکات ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جس میں پیشہ ورانہ دیانت ایک خوبی کے بجائے ایک ذمہ داری بن جاتی ہے۔ افسران اخلاقی فرض اور ادارے کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔ ڈسپلن سول سروسز اکیڈمی میں سکھائی جانے والی بنیادی اقدار ہیں، لیکن ذہنی صحت کی تعلیم یا نفسیاتی تربیتی کورس میں شاذ و نادر ہی شامل کی جاتی ہے۔ افسران کوجذبات کو اپنی پیشہ ورانہ شناخت کے حصے کے طور پر دبانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ دباؤ ظاہری سکون اور اندرونی پریشانی کے درمیان ایک تضادپیدا کرتا ہے۔
افسران کو ذاتی بحران، طلاق، مالی دباؤ، اخلاقی سمجھوتہ، یا پیشہ ورانہ تذلیل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے، سوشل میڈیا کی آمد نے افسران کی عوامی جانچ پڑتال میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے نئے نفسیاتی دباؤ پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ واقعات جو کبھی اندرونی رہتے تھے، اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں، اکثر سیاق و سباق سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ الزامات کا سامنا کرنے والے افسران، چاہے وہ جائز ہوں یا نہ ہوں، آن لائن مذمت کا نشانہ بنتے ہیں جو احتساب اور کردار کشی کے درمیان کی لکیر کو دھندلا دیتا ہے۔
ایک ایسی ثقافت میں جہاں ذاتی شہرت سماجی قدر کا اظہار ہے، ایسی عوامی تنقید تباہ کن ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر، تصور کا تضاد برقرار رہتا ہے، افسران سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوامی طور پر شفاف ہوں مگر ذاتی طور پر ناقابلِ تسخیر۔ ایسا دوہرا پن نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ ہے، جب خودکشیاں ہوتی ہیں، تو ادارے اکثر غیر منصفانہ معاملات کو سمجھنے کے بجائے طریقہ کار کی رسمی کارروائیو ں کے ساتھ جواب دیتے ہیں اعلی عہدے کے سینئرز کو رپورٹ کرنے والے افسران شدید طور پر واقف ہیں کہ غلطیاں کیریئر کی ترقی، پیشہ ورانہ شہرت، یا سماجی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
یہ ایک مسلسل تشویش پیدا کرتا ہے، خاص طور پر نوجوان یا کم تجربہ کار افسران کے لیے۔ مثال کے طور پر، نبیہ نوشیروانی اور ایس ایس پی عدیل اکبرکے معاملے میں رپورٹس بتاتی ہیں کہ انھیں اپنی ثابت شدہ قابلیت کے باوجود کارکردگی کی توقعات اور انتظامی نگرانی کے حوالے سے سینئرز کی طرف سے شدید جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔ فیصلے اور تنقید کا خوف ان جذباتی دباؤ میں اضافہ کرتا رہا جو وہ پہلے سے محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ معاملات کو بروقت کنٹرول نہ کیا جائے، تو جذباتی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے۔
سینئر افسران کو (mentors) کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ جہاں سینئرز نفسیاتی دباؤ میں حصہ ڈال سکتے ہیں، وہیں وہ روک تھام کے لیے ایک اہم راستہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔ سینئرز غلط بیانیوں کا مقابلہ کرنے میں ایک اہم کردارادا کر سکتے ہیں۔ حالیہ پولیس افسر کی خودکشی پر ہی غور کرلیں۔ افسر نے سماجی فیصلے کو اندرونی طور پر قبول کیا، احساسِ جرم کا تجربہ کیاکس طرح غلط بیانی نفسیاتی ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کرتی ہے، جہاں انسانی زندگیاں توقع اور حقیقت کے درمیان تناؤمیں پھنسی ہوئی ہیں۔ بالآخر، پاکستان میں سرکاری ملازمین کے درمیان خودکشی کے رجحانات سے نمٹنے کے لیے ایک پیراڈائم شفٹ کا مطالبہ ہے، ایک ایسا شفٹ جو افسران کی انسانیت کو تسلیم کرے، ہمدردانہ قیادت کو مربوط کرے، اورعوامی توقعات کوحقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ افسران کی جذباتی فلاح کو محفوظ بنایا جائے۔