پرچیوں کاانبارہاتھ میں لئے وہ وہاں کبھی ایک طرف اورکبھی دوسری طرف مارے مارے پھررہے تھے۔ یہ ایبٹ آبادکے تاریخی شفیق میڈیکل سنٹرکے باہرشام کاایک منظرتھا۔ ہم مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے پیارے دوست راشدخان کے علاج کے سلسلے میں وہاں کرسیوں پربیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیربعدوہی شخص چہرے پرپریشانی اورمایوسی کے گہرے آثارلئے ہماری طرف آئے۔ ساتھ والی کرسی پربیٹھے ندیم خان جوہمارے ساتھ آئے تھے سے سوالیہ اندازمیں کہنے لگے بھائی اللہ کی رضاکے لئے کچھ پیسے دے دیں میں نے اپنے تین بچوں کیلئے دوائی لینی ہے۔
ندیم خان نے موبائل سے سراٹھاتے ہوئے کہابھائی صحت کارڈپرتواکثرہسپتالوں میں علاج فری ہے آپ وہاں سے علاج کیوں نہیں کرواتے۔ وہ کہنے لگے صحت کارڈپرداخل مریضوں کاعلاج فری ہے پر میرے بچے ڈاکٹرنے داخل نہیں کروائے ہیں۔ انہیں شدیدبخار، الٹیاں اورسب کے گلے خراب ہیں۔ ڈاکٹرنے دوائی لکھ کے دے دی ہے جوبہت مہنگی ہے۔ میں ایک دیہاڑی دارمزدورہوں اتناکمالیتاہوں کہ جس سے بمشکل بچوں کودووقت کاکھانامل جاتاہے۔ یہ کسی ایک مزدورکا حال نہیں اس وقت اس ملک میں بڑھتی مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے نہ صرف مزدوربلکہ اچھے بھلے لوگ بھی اس طرح کے حالات سے گزررہے ہیں۔
سیاسی سکورنگ اورنمبربڑھانے کے لئے فری علاج اور صحت کارڈکاڈھنڈوراتوہرجگہ پیٹاجارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاج معالجے کے سلسلے میں اس ملک کے اندرعوام جتنے خواراورذلیل ہورہے ہیں اتنے کہیں اورنہیں ہوں گے۔ پنجاب اورسندھ کاتوہمیں نہیں پتہ لیکن خیبرپختونخوامیں فری اورصحت کارڈپرعلاج پل صراط پاس کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس کارڈپرعلاج کیلئے ہسپتال میں ایڈمٹ ہوناضروری ہے اورہسپتال میں داخل ہونے کے لئے کن کن مراحل سے گزرناپڑتاہے یہ سب کومعلوم ہے۔ پھرصحت کارڈکے چلنے اوربندہونے کابھی کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ یہ تو بادشاہوں کی مرضی ہے کہ کارڈکوکب چلاناہے اورکب بندکراناہے۔
ایک طرف سینہ چوڑاکرکے کہاجاتاہے کہ ہم نے صحت کارڈپرہرشخص کودس لاکھ روپے تک کی سہولت دے کرتاریخ رقم کردی ہے دوسری طرف حال یہ ہوتاہے کہ بندہ آپریشن اوردیگرعلاج کیلئے ہسپتال میں ایڑھیاں رگڑتارہتاہے اورعلاج صرف اس وجہ سے نہیں ہوتاکہ صحت کارڈبندہوتاہے۔ یہ اگرواقعی سہولت ہے توپھراسے پن چکی بنانے کی کیاضرورت ہے؟ صحت کارڈایک اچھی کاوش لیکن چیک اینڈبیلنس اورخصوصی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کارڈنے صحت کانظام تباہ کرکے رکھ دیاہے۔ وہ جن لوگوں نے مسیحابن کرعوام کے رستے زخموں پرمرہم رکھنے تھے وہ اب صحت کارڈکے ذریعے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کی راہیں تلاش کرتے پھررہے ہیں۔
عوام صحت کارڈکے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ادھرمافیانے ادویات کی قیمتوں میں اتنااضافہ کردیاہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ جودوائی پہلے پانچ سوروپے کی تھی وہ اب ہزارکی ہوگئی ہے۔ سارے مریض ہسپتالوں میں داخل نہیں ہوتے اورنہ سب کاعلاج کارڈشارڈپرمفت ہوتاہے۔ ہزاروں مریضوں کوڈاکٹرزپرچیوں پردوائیاں لکھ کراوپی ڈی سے ہی گھربھیج دیتے ہیں۔ اللہ ہدایت دے۔ ہمارے ڈاکٹرزصاحبان جب لکھناشروع کرتے ہیں توپھریہ دوائیاں اورٹیسٹ بھی کچھ کم نہیں لکھتے۔ جس بندے کی پورے مہینے کی تنخواہ ہی تیس چالیس ہزاریادیہاڑی ہی ہزاربارہ سوروپے ہووہ اتنی مہنگی دوائیاں کہاں سے لے گایابھاری بھرٹیسٹ کیسے کرے گا؟ اس لئے اس مزدورکی طرح جوشخص بچوں کی دوائی کے لئے ماراماراپھرتادکھائی دیتاہے تواسے دیکھ کردل سے ایک ہی آہ نکلتی ہے یارب کسی غریب اوراس کے بچوں کوبیمارنہ کردے۔
امیرلوگ تعلق، واسطے اورسفارش سے کارڈپرعلاج کرادیں گے نہیں توکسی بڑے اورمہنگے ہسپتال کے چکرپرچکربھی لگالیں گے لیکن غریب اورمزدور؟ ان کاکوئی وس اوربس نہیں ہوتا۔ ہم نے مالی طاقت اورسہولت نہ ہونے کی وجہ سے غریب کے بچوں کوایک سودوکے بخارمیں جلتے اورتڑپتے دیکھاہے۔ امیرکے بچوں کومعمولی بخارہوتووہ انٹرنیشنل مارکہ والے ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں لیکن غریب کے بچے ایک سودوبخارمیں بھی صرف اس وجہ سے جھونپڑیوں میں آہیں بھرتے اورسسکیاں لیتے ہیں کہ ان کے ماں باپ کے پاس انہیں کسی سرکاری ہسپتال لے جانے کے پیسے نہیں ہوتے۔
ہم نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کے پاس ہسپتال تک جانے کاکرایہ بھی نہیں ہوتا۔ اب خودسوچیں جن کے پاس ہسپتال تک جانے کاکرایہ نہ ہووہ بھاری اورمہنگی ادویات کے لئے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ صحت اورتعلیم یہ توحکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے حکمران صحت اورتعلیم کے نام پرکارڈکارڈکھیلنے سے فارغ نہیں ہورہے۔ حکمران عوام کوعلاج معالجے کے لئے بے شک کوئی کارڈنہ دیں لیکن کم ازکم ادویات کوتوسونابنانے سے روکیں۔ اتنااضافہ توعوام کی آمدن اورمزدورکی دیہاڑی میں نہیں ہوتاجتنااضافہ ادویات کی قیمتوں میں ہورہاہے۔ پھرادویات کے اصل اورنقل کابھی کوئی پیمانہ نہیں۔
میڈیکل سٹورزپرجوکچھ بیچاجارہاہے یہ اصلی ہے یانقلی، عوام کیا؟ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کوبھی اس کاکوئی پتہ نہیں۔ جولوگ کرنسی، کپڑا، سگریٹ، شیمپواورمشینری تک کاپی کرسکتے ہیں ان کے لئے ٹیبلٹ اورسیرپ کاپی کرناکیامشکل ہے؟ کیااس ملک میں کئی بارجعلی ادویات کے گودام نہیں پکڑے گئے؟ آج بھی اس ملک میں بہت سارے گودام جعلی ادویات سے بھرے پڑے ہوں گے۔ جن لوگوں کوپیسے کی لت لگ جائے وہ پھردوسروں کی زندگیوں سے کھیلناثواب سمجھنے لگتے ہیں۔
ہمارے اس ملک میں ایساثواب کمانے والوں کی توویسے بھی کوئی کمی نہیں۔ آپ کسی بھی شاپ اورجگہ پرجائیں آپ کووہاں ثواب والی کوئی نہ کوئی شے ضرورملے گی۔ آٹا، دودھ، چائے اورگھی سمیت کونسی چیزہے جس میں ملاوٹ نہیں۔ حکمران عوام کی زندگیاں آسان بنانے کے لئے مافیاپرہاتھ ڈالیں۔ یہ ظالم ہرجگہ عوام کولوٹ رہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے نہ صرف عوام کیلئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کاعوام کوفائدہ نہیں پہنچتابلکہ ان ظالموں کے ہاتھوں عوام کی زندگیاں عذاب بن گئی ہیں۔ مہنگائی سے غربت اوربیروزگاری تک ہرگناہ میں اس مافیاکاہاتھ ہے۔ حکومت ان کاقلع قمع کرکے عوام پررحم کریں تاکہ غریب مزدوربھی آرام سے جی سکیں۔