یہ حقیقت توسب جانتے اورمانتے ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی سے جس طرح عوام کے مسائل حل اورترقی کی راہیں کھلتی ہیں اس طرح اوپرسطح کے اختیارات یاکسی اورطریقے سے نہیں لیکن اس کے باوجودجب ملک میں نئے انتظامی یونٹس اورنئے صوبوں کے قیام کی بات آتی ہے توہم میں سے بہت لوگ ناک چڑھاناشروع کردیتے ہیں۔
یہ حقیقت جاننے اورسمجھنے کے باوجودکہ نئے صوبوں کے بننے سے نقصان کوئی نہیں بلکہ فائدے ہی فائدے ہیں پھربھی ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کے کچھ دشمن نئے صوبوں کی مخالفت کے لئے میدان میں اترتے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ نئے صوبوں کے قیام ونام سے جن لوگوں کے پیٹ میں مروڑاٹھنے لگتے ہیں ایسے نمونوں وعجوبوں کونئے صوبوں سے آخر مسئلہ کیاہے؟ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے تحریک صوبہ ہزارہ کے قائدباباسردارحیدرزمان جن کوہم نے نہ صرف بہت قریب سے دیکھابلکہ خوب پرکھابھی وہ زندگی کی آخری سانس تک صوبہ ہزارہ سمیت ملک میں دیگرنئے صوبوں کے قیام کے لئے جدوجہدکرتے رہے۔
صوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے بابانے جوقربانیاں دیں اتنی قربانیاں شائدکسی نے دی ہوں۔ وہ نحیف وکمزورجسم اوربڑھاپے کے باوجودملک میں نئے صوبوں کے قیام کے لئے ہرمحاذپرلڑتے رہے۔ ایک دن ہم نے مذاق مذاق میں پوچھا۔ باباآپ صوبہ کیوں بناناچاہتے ہیں؟ بابانے ہمارے سوال کاجوجواب دیاوہ آج بھی ہمیں یادہے۔ کہنے لگے جوزوی بیٹاکبھی سوچاہے کہ پرندے اپنے لئے گھونسلے کیوں بناتے ہیں۔ جس طرح پرندوں کے لئے گھونسلہ ضروری ہے اسی طرح انسانوں کی ترقی، خوشحالی، تحفظ اورشناخت کے لئے نئی تحصیل، اضلاع اورصوبے بھی ضروری ہیں۔
ملک میں جس قدرنئے انتظامی یونٹ اورصوبے بنیں گے اس قدرنہ صرف عوامی مسائل حل ہوں گے بلکہ ملک ترقی اورخوشحالی کی راہ پربھی گامزن ہوگا، ہزارہ کی پسماندگی کی بڑی وجہ صوبہ بننانہیں، ہزارہ صوبہ ہوتاتویہاں یہ مسائل اورعوام کاکایہ حال نہ ہوتا، میری خواہش ہے کہ ہزارہ صوبہ بنے تاکہ یہاں کے غریب ومحکوم عوام ان اندھیروں سے نکل سکیں، افسوس زندگی نے باباکے ساتھ وفانہیں کی اوروہ ملک میں نئے صوبوں کاخواب دل میں لئے اس دنیاسے رخصت ہوئے، اب پھرملک میں نئے صوبوں کاشورسناتوبابایادآگئے۔ ویسے لوکل باڈیزسسٹم اوربلدیاتی انتخابات کانہ کوئی انکارکرتاہے اورنہ کوئی اس کی مخالفت کرتاہے بلکہ ہربندہ یہ کہتاہے کہ لوکل نظام کے ذریعے نچلی سطح پراختیارات منتقل ہوکر گھرکی دہلیزپرعوام کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں اورعلاقوں کی ترقی بھی ہوتی ہے۔
بلدیاتی نظام کے ذریعے اگراتناکچھ ہوتاہے توسوچنے کی بات ہے کہ پھرنئے صوبوں کے قیام سے کیاکچھ نہیں ہوگانئے صوبے بننے سے نہ صرف بھرپوراختیارات اورفنڈزبلکہ پوراایک سسٹم مختص اضلاع اورعلاقوں میں منتقل ہوگاجہاں پھرکسی کام کے لئے دورجانانہیں پڑے گااورنہ علاقائی وسائل کہیں اورصرف ہوں گے۔ ہزارہ کودیکھیں اس علاقے میں قدرتی وسائل اوررب کی عطاء کردہ نعمتوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اختیارات اوراپناسسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف جہاں ہزارہ کے وسائل دوسری جگہوں پرلگ رہے ہیں وہیں دوسری طرف ہزارہ کے عوام کوچھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی پشاوراوراٹک پارجاناپڑتاہے۔
نئے صوبوں کے قیام سے مرکزاورسسٹم بھی کمزورنہیں بلکہ مضبوط سے بھی مضبوط ترہوگاکیونکہ نئے یونٹ اورصوبے جتنے زیادہ ہوں گے اتناہی مرکزمضبوط ہوگاجس طرح فردکے مقابلے میں افرادکاپلہ بھاری ہوتاہے اسی طرح صوبے کے مقابلے میں صوبوں کی اہمیت اوروزن بھی زیادہ ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ دوالگ خاندان ہیں ایک میں افرادواشخاص پانچ اوردوسرے میں دس ہیں اب خودسوچیں کہ مضبوط اوربڑاخاندان پانچ والاہوگایادس والا؟
جس طرح پانچ کے مقابلے میں دس کی اہمیت زیادہ ہے اسی طرح چاراورپانچ صوبوں کے مقابلے میں اٹھ اوردس صوبوں کی اہمیت وطاقت بھی زیادہ ہوگی۔ اختیارات جتنے نچلی سطح پرمنتقل ہوں گے اس حساب سے مسائل کم اوروسائل بھی زیادہ ہوں گے۔ یہ توہمیں نہ جانے نئے صوبوں سے کیاڈر، خوف اوردشمنی ہے کہ نئے صوبوں کانام سنتے ہی ہم غم وغصے سے کالے پیلے ہوجاتے ہیں ورنہ یہ نئے صوبے یہ کوئی بلاتونہیں بلکہ یہ توترقی اورخوشحالی کاایک ذریعہ ہے۔
آپ نے دیکھاہوگاجہاں جتنے زیادہ صوبے اورانتظامی یونٹس ہوتے ہیں وہاں اس حساب سے ترقی کی رفتارتیزہوتی ہے۔ اسی لئے ہم شروع دن سے یہ لکھتے اورکہتے آرہے ہیں کہ ملک میں نئے صوبے بننے چاہئیے مگرہاں یہ صوبے یانئے انتظامی یونٹس قومیت، لسانیت، سیاست یاذاتیات کی بنیادپرہرگزنہیں۔ اس طرح کی سوچ اورخرافات پرلعنت بھیجنے کے سواہمارے پاس نہ پہلے کوئی راستہ تھااورنہ اب کوئی چاراہ ہے۔ پنجاب ہو، خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان یاپھرگلگت بلتستان ان میں رہنے والے سب بھائی بھائی اورایک جسم کی مانندہیں۔ ہم الگ اضلاع میں رہیں یاالگ صوبوں میں ہمارایہ بھائی چارہ، پیاراورمحبت کارشتہ ہمیشہ باقی رہتاہے۔
بحیثیت قوم ہم پہلے بھی ایک تھے، اب بھی ایک ہیں اورانشاء اللہ تاقیامت ایک رہیں گے۔ ترقی اورخوشحالی کی نیت ہوتونئے صوبوں کاقیام یہ کوئی جرم اورگناہ نہیں۔ گناہ تووہ ہے جوملک وقوم کولسانی، قومی یاسیاسی بنیادوں پرتقسیم کرنے کی کوشش کریں۔ نئے صوبے تواختیارات کی تقسیم ہے قومیت اورلسانیت کی نہیں، اس میں توہرزبان، رنگ اورنسل کابندہ رہ سکتاہے، اس سے ملک اورقوم تقسیم نہیں بلکہ مزیدمضبوط اورمتحدہوگی۔
ایک ہی مکان میں رہنے والے بہن بھائی جب الگ الگ مکانوں میں رہنے لگتے ہیں توکیااس سے ان کی محبت، بھائی چارہ اورتعلقات کم ہوتے ہیں؟ نہیں اورسوفیصدنہیں۔ یہ توقانون فطرت ہے کہ جوں جوں آبادی کی رفتاربڑھتی جاتی ہے اس حساب سے اختیارات بھی آگے منتقل اورتقسیم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے صوبہ ہزارہ سمیت ملک میں نئے صوبے یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اوراس کیلئے ہرشخص کواپناکرداراداکرناہوگا۔