بات زیادہ پرانی نہیں جب برصغیر میں گورکھ مکھی کا استعمال خال خال تھا۔ بیشتر سرکاری امور فارسی اور اردو زبان میں انجام پاتے تھے۔ اگر آپ لاہور سیکرٹریٹ میں قائم عجائب گھر کا دورہ کریں تو وہاں پر موجود رنجیت سنگھ کے فارسی زبان میں مہر شدہ خطوط آپ کو حیران کر دیں گے۔ یہاں مغلوں کے علاوہ دیگر حکومتوں کی سرکاری زبان بھی فارسی ہی تھی اور عوام اردو ہی بولتے اور لکھتے تھے۔ بھارت میں موجود زیادہ تر عوام کچھ دھائیاں قبل اردو کو ہی ترجیج دیتی رہیں ہیں۔
کانگریس نے اپنے ادوار میں اردو لہجوں کو ہندی میں بدلنے کے لئے اتنا کام نہیں کیا جتنا آج کل وہاں خصوصاً بی جے پی، راشٹریہ ہندو رپریشد اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے کٹر ہندو کر رہے ہیں مگر ان کو بھی آج کل ہندی بولتے ہوئے اس لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں سرکاری طور پر حکم نامے کے ذریعے عوام اور بلخصوص حکومتی عہدیداروں کو بزور طاقت کہا جا رہا ہے کہ وہ بولتے ہوئے سنسکرت اور ہندی کے الفاظ شامل کریں تاکہ اردو کا تاثر ختم ہو لیکن وہ اپنی فلموں اور گیتوں میں ایسا کرنے سے فی الحال کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں۔
ان کے وزراء مکھ منتری ابھی بھی تسلسل میں اردو بولتے ہوئے لفظ سال کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن پھر ہندی کا خیال آ جانے پر اس جملے کو دوبارہ دوہرا کر سال کو "ورش" میں تبدیل کر دیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی دباؤ کے باعث ایسا کر رہے ہیں مگر ہم بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنے جملوں میں انگریزی کا لفظ جوڑنے کی کوشش میں رہتے ہیں حالانکہ مادری، مذہبی، مغربی اور نصابی زبانوں کے بارے میں جتنے مسائل ہمیں ہیں اتنے ہی بھارتیوں کو بھی ہیں۔ وہ علیحدہ بات ہے۔ اردو کو اس خطے میں بلکہ دنیا میں جو مقام حاصل ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور یہ زبان ہر شاہ وگدا کے دل پر راج کرتی رہی ہے۔
پاکستان بننے کے تقریباََ چار ماہ بعد پاکستان سے ہجرت کر جانے والے ایک ہندو مہاجر کا پوسٹ کارڈ میرے دادا جان سلطان احمد حسن کو موصول ہوا جو آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ پوسٹ کارڈ 23 دسمبر 1947 کو متھر داس کٹاریہ (اہل مند) کی جانب سے اندرون دروازہ امرتسر سے منٹگمری ساہیوال کے پتہ پر لکھا گیا تھا جس پر ٹھیک دو دن بعد موصول ہونے کی مہر اور دو آنے کی ٹکٹ لگی ہے۔ خط کی عبارت اردو میں نہایت اعلی ودیدہ زیب ہے ملاحظہ فرمائیں:
قبلہ مولوی سلطان احمد صاحب جی سلام!
بندہ خیریت سے ہے اور آپ کی خیریت ہر دم نیک مطلوب۔ صورت احوال آنکہ۔ جب سے بندہ آپ سے علیحدہ ہو کر پاک پتن گیا تھا آپ سے دوبارہ ملنے کی خواہش تھی مگر وہ خواہش دل کی دل میں رہ گئی اور ہمیشہ کے لیے آپ کے دیدار سے فیض یاب ہونے سے محروم کر دیے گئے۔ جس وقت ہم نے منٹگمری کو خیرباد کہا یہ دل میں ارادہ تھا کہ ٓاپ کی خدمت میں کم از کم ایک خط تو بھیج دوں مگر چونکہ کوئی قیام مکمل طور پر نہ بن سکا اس لیے خط نہ لکھ سکا۔ گو فی الحال مکمل طور پر قیام نہیں ہو سکا ہے تو دل کی کشش سے خط ارسال خدمت ہے۔ ہم پاک پتن سے قافلہ کی صورت اور عزیز وید پرکاش منٹگمری سے قافلہ کے ہمراہ عزیز لاچپت رائے بذریعہ ریل گاڑی منٹگمری سے روانہ ہوا۔ ہم اور وید پرکاش تو فاضل کا اور لاچپت امرتسر پہنچے۔ گو تمام سامانِ خانگی پاک پتن اور منٹگمری میں چھوڑنا پڑا۔ منٹگمری والا سامان کچھ تو گھر میں اور کچھ شام داس کے گھر رہ گیا اور باقی کچھ اسٹیشن پر رہ گیا ہم خالی ہاتھ ہندوستان پہنچے۔ تا حال میری ملازمت نہیں لگی ہے کیونکہ خالی سیٹوں پر جونیئر اہلکار پہلے سے لگ گئے ہیں اور سینئر اہلکار اس انتظار میں رہے کہ ہائی کورٹ پھر لگا دیوے گی۔ میں شملہ سے اپنی تقرری کا حکم امرتسر کے لیے لے آیا ہوں مگر تاحال تقرری نہیں ہوئی ہے۔ امید ہے ہو جائے گی۔ فی الحال فارغ ہوں۔
امید ہے عزیز حبیب احمد کسی اچھی جگہ لگ گیا ہوگا۔ دیگر منٹگمری کے حالات سے آگاہی بخشیں۔ ہمارے گھر میں اس وقت کون آباد ہے۔ ہمارے سامان کا کیا بنا؟ کیا لٹ چکا ہے یا موجودہ قابض کے قبضے میں ہے۔ میرے سسرال کے مکان میں کون آباد ہے۔ ان کے سامان کا کیا بنا۔ میرے سامان پر جس کا قبضہ ہوا ہے اس سے میری کتابیں اور دیگر ضروری کاغذات جو کہ آپ کے خیال میں ضروری ہوں لے لیں اور جب حالات درست ہو جائیں اور سلسلہ خطابت مکمل طور پر جاری ہو جائے بھجوا کر مشکور فرمائیں اور خط کے جواب سے بھی مشکور فرمائیں۔ فقط نیاز مند متھرا داس کٹاریہ و پتہ۔۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ متھرا داس کٹاریہ بغیر کوئی زخم لیے زندہ بھارت پہنچ گیا تھااور میں نے اور میرے بزرگوں نے اس کا خط آج تک محفوظ رکھا ہے کیونکہ کسی شاعر یاادیب کی کوئی تخلیق ضائع ہو جائے تو وہ اس کے نقصان کو اندر ہی اندر جتنا محسوس کرتا ہے اس کے صدمے کا اندازہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔
اس خط کا جواب میرے دادا جان نے کیا دیا تھا اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ انہوں نے خط میں کیا تفصیلات بیان کی تھیں۔ لیکن یہ خط بہرحال جو بھارت سے موصول ہوا وہ منٹگمری میں رہنے والے ایک ہندو کا اردو سے محبت کا واضح ثبوت ہے جس میں اس نے سنسکرت یا ہندی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن آج کل ہندوستان میں باقاعدہ تحریری حکم جاری ہے کہ اپنی گفتگو اور لکھنے میں ہندی کے الفاظ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں مگر جبری طور پر کسی زبان یا لہجے کو تبدیل کرنے میں ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس خط کی ایک وڈیو بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جوذیل ایڈریس پر تلاش کی جا سکتی ہے۔
A letter from Amritsar to Montgomery. Nihal Usmani