Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Ali Raza Ahmed/
  3. Viral

Viral

لفظ وائرل بذات خود زیادہ پرانا نہیں ہے مگر اب یہ افواہ اور جھوٹ سے زیادہ تیزی سے پھیلنے میں سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور جھوٹ تو اس کے پاؤں جیسا بھی نہیں جس کے اپنے پاؤں بھی نہیں ہوتے۔ دوسری طرف دنیا میں جتنی تیزی سے ٹیکنالوجی، شوشیالوجی اور میتھالوجی تبدیل ہو رہی ہے محسوس ہوتا ہے کہ اب انہیں بھی پرانا ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور وہ بھی عنقریب ڈی وائرل ہو چکے ہوں گے۔

آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کی ہر پوسٹ فوری وائرل ہو رہی ہے ہر وہ خبر جب وہ پاکستان کا اعزازی وزیر اطلاعات بن کر مودی کو چھ سات بار نظروں سے گراتا ہے۔ ویسے ہر امریکی صدر ہر دور میں بڑا طاقتور ہوتا ہے بھلے وہ چیئر پر براجمان ہو یا ویل چیئر پر۔ اسی طاقت کی وجہ سے امریکی صدور نے کانگریس سے من چاہا بل پاس کروانے کا فائدہ ہمیشہ اٹھایا ہے سوائے بل کلنٹن کے جہاں پر اس کے اپنے خلاف "بل" آ گیا تھا۔ مگر جب سے ابراہام "Linkedin" کو"آن لائن" جاب ملی اس وقت سے کسی امریکی صدر کو اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکا کیونکہ ہر اچھی ٹارچ امریکہ ایجاد کرتا ہے اور وہ اسی لائم لائیٹ سے مخالفین کو"ٹارچر"کرتا ہے۔ اسی لئے جارج Bush آج تک ایسے ہی سرسبز ہے جیسے اوبامہ سالاد کی "بارک کو لی" کی طرح ابھی تک مکملGreen..

امریکی عوام آگاہ ہیں ہر Bush میں کوئی نہ کوئی درنددہ چھپا ہوتا ہے جو وقت آنے پر ambush لگاتا ہے۔۔ بہرحال ہر امریکی صدر وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے اپنے تمام سیاہ سپید کارنامے دھو دھلا کر جاتا ہے تبھی ان کے لئے خصوصی طور پر Washington شہر بسایا گیا ہے جو ایک طرح کا "واشنگ ٹاؤن" ہے وہ منی لانڈرنگ شاید نہ کرتے ہوں لیکن Manual Laundring ضرور کرتے ہیں۔

تاریخی طور پر دو امریکی بڑے لاڈلے مانے گئے ہیں ان میں سے ایک "نکی" اور دوسرا "نکی سن" ویسے بھی عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے لیکن امریکی صدور کے لئے ایک درمیانی انگلی کا بھی کافی مانا جاتا ہے۔۔ ایک امریکی بچی اپنے باپ سے کہنے لگی جب میں بڑی ہوں گی تو میں بھی آپ کی طرح امریکہ کی صدر بنوں گی۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا۔ کیا تمہیں عقل نہیں۔۔ کیا تم واقعی پاگل ہو یا تمہارا دماغ چل گیا ہے؟ بچی کہنے لگی کیا صدر بننے کے لیے بس یہی صلاحیتیں درکار ہیں؟

حالانکہ صدرٹرمپ بغیر مونچھوں ہے مگر ہے بڑے دل گردے والا۔ اس لئے وہ اپنی باتوں سے ہی دنیا کو ڈرانے میں کامیاب رہتا ہے بلکہ اب وہ "ڈراؤنل" ٹرمپ بن چکا ہے۔ اگر وہ ابراہام لنکن کی طرح بڑی مونچھیں بھی رکھ لے تو پھر اس کے نوبل پرائز کوپکا سمجھیں۔ وہ واحد امریکی سیاست دان ہے جو ہیلری کلنٹن کی شہرت سے ویسے ہی ہار تسلیم کیے بیٹھا تھا اور اس کے انڈر کام کرنے کو بھی تیار تھا۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ کو شکوہ ہے کہ مودی نے اس کے چار فون نہیں اٹھائے اگر اس کی مونچھیں ہوتیں تو مودی کی کیا جرات تھی۔ ایک وقت تھا ہمارے ایشیا کے دیسی ساختہ "ٹرمپ"کو بھی یہی شکوہ تھا کہ مودی میرا فون نہیں اٹھاتا۔ اس بات کا اظہار جب ایک جلسے میں جب کیا گیا تو بہت تالیاں بجائی گئیں اور لیڈرانہ صلاحیت کو بہت داد تحسین سے نوازا گیا۔ فرانس کے میکرون کو جب یہ شکایت ہو کہ بیوی میرا فون نہیں اٹھاتی تو فرانس کی عوام اس کو بھی بہت سراہتی ہے مگر کسی اور کی بیوی اس کی پہلی کال پر ہی اٹینڈ کر لیتی ہے۔ مودی نے جب کہا تھا کہ "پاکستان نے بھارت پر ہی حملہ کرنا شروع کردیا اور ہمارے سینک ٹھکانوں کو نشانہ بنایا" تو پر جوش بھارتی عوام نے اس کی اس گہری معلومات کو بھی بہت سراہا تھا۔

دراصل 2020 میں کووڈ کے وائرس کے ساتھ ہی ایسے لیڈران سامنے آ چکے ہیں جن کو عوام بھی ایک جیسی ملی ہے اور یہ سارے لیڈران ان تمام سے بھی دو بلکہ چار ہاتھ آگے ہیں۔ ان میں مودی اور نیتن یاہو جیسے وائرس پہلے ہی دنیا کو لگ چکے تھے۔ ایشیا کے دیسی ٹرمپ کو عوام بھی بدقسمتی سے بزدل ملی ہے جو اس کے آگے یا پیچھے چلنے سے گھبرا رہی ہے حالانکہ اس نے اپنے ہر میچ میں کرپشن کے خلاف کبھی فیلڈ ہی کھڑی نہیں کی حالانکہ ایک بڑ ا دور اندیش Visionary لیڈر مخالف ٹیم کے چوکوں چھکوں سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے کچھ اسی وجہ سے اس کے ہر کھلاڑی کی آنکھ میں "وائلڈ" بال آ گیا تھا بلکہ اُس دور کے Presidenture کی چشمِ تر میں بھی۔۔

انہیں 2020کے لیڈران میں سے ایک مودی بھی وہ خاص قسم کا خود ساختہ رنڈوا ہے جس پر ساری دنیا ترس کھاتی رہی ہے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ صرف اس کی بدعا سے ڈرتی رہی ہے اور اس پر ہر قسم کے انعامات کی بارش کرتی رہی ہے دریں اثناء یہ رنڈوا کیکر کا "کنڈوا" بن چکا ہے جو ہر ملک کے پاؤں میں چبنے لگا ہے بلکہ اب یہ "کنڈیارہ"کسی کو خاطر میں نہیں بھی لاتا کیونکہ اب اس کے پاس ملکی خزانوں کے ڈھیر جمع ہو چکے ہیں۔ وہ ان خزانوں کی تیز نوکیں ہر ملک کو چبو رہا ہے بلکہ اسی سال اس نے کینڈا کو بھی اپنے بحری بیڑے وکرانت کے ذریعہ حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ نیتن یاہو سے اس کی دوستی صرف ذاتی مفاد کی وجہ سے دکھائی دے رہی ہے اب تو یہ لگتا ہے دنیا میں چائے کے شوقین نیتن یاہو ہے یا کنگنا رانوت۔

کنگنا رانوت سمیت جس جس ملک کو اس نے اپنے ہاتھوں سے لوٹا ہے اب وہ اس سے حساب لینے کے لیے فون کرتے ہیں اور یہ اپنے حساب سے ان کے قابو سے باہر ہو چکا ہے اور اپنے ہی چائے کے کپ میں طوفان برپا کر رہا ہے۔ کنگنا نے اب راشٹریہ بھون سے آہستہ آہستہ سرکنا شروع کر دیا ہے کیونکہ اسے اپنی شکل مودی جیسی لگنا شروع ہوگئی تھی۔ کنگنا رانوت کی بغاوت مودی کو ڈرون کی طرح لگی ہے اور اب اس کی اپنی نیند پر بھی سو فی صد ٹیرف لگ گیا ہے کیونکہ کنگنا نے کنگھی کرکے اب اسے کنگنے بھی پہنا دیے ہیں اور وہ اپنے ملک کی حسینہ واجد بننے کے قریب ہے اور یہ خبر بھی وائرل ہونے کے قریب ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran